ترقی کے نام پر بلوچوں کی نسل کشی۔ فرحان بلوچ

600

ترقی کے نام پر بلوچوں کی نسل کشی
تحریر: فرحان بلوچ

ریاستی ادارے ترقی کے نام پر آج ہزاروں بلوچوں کو بے گناہ مار رہے ہیں، کوئی ایسا دن نہیں گذرتا، جب بلوچستان کی زمین پر معصوم بلوچوں کا خون نہیں بہتا ہو۔
ریاستی ادارے بلوچستان کا استحصال کرکے انکی قیمتی وسائل لوٹ رہے ہیں، جب پاکستان نے بلوچستان پر بزور طاقت اپنا قبضہ جمایا، اس دن سے لیکر آج تک بلوچستان میں تباہی کی آگ بڑھتی جارہی ہے، روز مرہ کی گرفتاریاں، بے گناہ معصوم لوگوں کو انکے گھروں سے زور و زبردستی سے بے دخل کرنا، یہ ایک عام بات بن چکی ہے، لوگوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرنا، بعد میں انکی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنا انکو ایسی حالت میں مارنا کہ شناخت کے قابل نہ رہ جائیں لیکن سلام ہے بلوچ قوم کو جنہوں نے اتنی ظلم اور بربریت سہنے کے باوجود، غلامی کی زندگی پر ہمیشہ سے ہی موت کو ترجیح دی ہے۔

جب سے دنیا میں پاکستان کا نام وجود میں آیا ہے، تب سے ایشیاء میں قتل و غارت ایک عام بات بن چکی ہے، افغانستان کی سرزمین کو لہولہان بنانے میں صاف صاف پاکستان کا ہاتھ ہے، کیونکہ طالبان، داعش اور دوسرے دہشتگرد گروہ پاکستان میں پناہ لے کر افغانستان اور بلوچستان میں دہشتگردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے کئی ہزار سال پہلے بلوچوں کی تاریخ ملتی ہے، جنہوں نے کئی مقامات پر دشمنوں سے دلیری سے لڑ کر فتح حاصل کی ہے اور اپنی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کیئے۔

بلوچستان اس سے پہلے ایک آزاد اور خودمختار ریاست تھا، مگر 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے ہر اخلاقی اور عالمی قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلوچ سرزمین پر قبضہ کرکے اسکو بزور شمشیر پاکستان کا صوبہ بنایا۔

اسی دن سے بلوچوں کے دلوں میں غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے، جس کی ابتداء آغا عبدالکریم خان نے بغاوت کے اعلان سے کیا اور 10,000 کی فوج کے ساتھ پاکستانی فوجیوں کے خلاف بغاوت کرنے کیلئے سرلٹھ کے مقام پر گیا، اور افغانستان سے مدد مانگی، مدد نہیں ملی افغانستان نے کہا کہ بطور ایک غیر ملکی رہ سکتے ہو، آغا عبدلکریم خان نے منع کیا اور واپس بلوچستان میں پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ کیلئے پوری فوج کے ساتھ تیار تھا، خان قلات کی طرف سے ایک خط بھیج دیا گیا کہ آو قلات میں تم سے ملاقات کرنی ہے، آغا عبدلکریم خان اپنے ساتھیوں کو چھٹی دیکر اور تقریبا دو سو کے قریب ساتھیوں کے ہمراہ بات چیت کرنے کیلئے قلات ہربوئی کے مقام کی طرف روانہ ہوا، جہاں پہلے سے پاکستانی فوجیوں نے انکو گھیرے میں لے لیا، جہاں شدید لڑائی شروع ہوگئی، اس دوران پاکستان کے فوجی ہلاک اور آغا عبدلکریم کے ساتھی بھی زخمی ہوئے، پھر انہیں قرآن مجید کی قسم دیکر ان سے ایک معاہدہ کیا، لیکن پھر بھی انہیں گرفتار کیا گیا اور اسی طرح آہستہ آہستہ بلوچستان کے سب ہی جنگجووں میں ایک غصے کی لہر پھیل گئی۔ آغا عبدلکریم خان کے بعد کئ بلوچوں نے مزاحمت کی، مگر ابھی تک پاکستان سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔۔

بلوچستان میں بلوچوں پر کی گئی ظلم کی ایک بڑی داستان ہے، بلوچستان میں ترقی کے نام پر بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے کیلئے بہت سے غیر ملکی کمپنیاں اس وقت موجود ہیں، پاکستان نے کئ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدات کیئے ہیں اور زمنیں بھی بیچی جارہی ہیں، اس وقت سب سے بڑا منصوبہ بلوچستان میں سی پیک کے نام سے مشہور ہے، جس میں چائنا اور پاکستان مل کر بلوچستان کی زمینوں کو لہو لہان کرتے رہے ہیں اور دوسری طرف چین تبتیوب کی نسل کشی میں ملوث ہے، چین کے لوگوں نے عظیم ترین انقلابی رہنما ماوز تنگ کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے دوسری مظلوم قوموں پر نسل کشی میں ملوث ہو رہے ہیں اور دوسری طرف سی پیک کی روڈیں جس کی وجہ سے ہزاروں بلوچوں کے گھر مسمار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اغواء اور مارے جارہے ہیں لیکن بلوچ قوم سختی سے ان سب منصوبوں کو مسترد کرچکی ہے اور اب منصوبوں جیسے کی سیندک پروجیکٹ سی پیک اور کئ منصوبے سب بلوچ قوم کی نام و نشان مٹانے کیلئے ہیں، ان منصوبوں اور قبضے کے خلاف بلوچستان میں کئ سالوں سے بلوچوں نے مزاحمت شروع کی ہے اور پورے بلوچ عوام اس طرح کی منصوبوں کو مسترد کرتی جارہی ہیں اور آگے بھی کریگی اور انکے خلاف بھر پور مزاحمت جاری رکھیں گی۔

چین کو چاہیے کہ وہ عظیم ماوز تنگ کی قربانیوں کی قربانیوں کو نظر انداز مت کریں، جیسے کہ انکا خواب تھا کہ ایک عظیم ترین چین لیکن وہ بلوچ قوم اور تبتی لوگوں کی نسل کشی میں صاف ظاہر ہورہا ہے، بلوچ قوم اب جاگ رہی ہے، اصلیت کو جان چکی ہے کہ 70 سالوں سے ان پر کیا گذر رہی ہے، جب 1952 کو سوئی کے مقام سے گیس برآمد ہوئی تو فورا ہی پاکستان کے دوسرے صوبوں میں سپلائی کر دی گئی اور ابھی تک جہاں سے گیس نکلتی ہے وہیں سے بلوچ عورتیں اپنی کھندوں پر لکڑیاں لا کر جلاتے ہیں اور سونا سیندک کے مقام سے نکل رہا ہے، بلوچ عوام بھوک اور پانی کی ایک بوند کیلئے تڑپ رہے ہیں۔

بلوچ قوم کیلئے یہ سب منصوبے صرف اور صرف تباہی کا باعث بنتے جارہے ہیں 45 بلین ڈالر کے منصوبے اور سیندک پروجکٹ، بلوچوں کی تقدیریں کبھی نہیں بدلیں گی، گوادر جہاں چین کے لوگ سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں اور وہاں پر مظلوم عوام پانی کے ایک بوند کیلئے تڑپتے ہیں، وہاں ہم کیسے باور کریں کہ بلوچستان میں ترقی آئیگی، یہ سب جھوٹ ہیں اور انکو بلوچ قوم دنیا کے سامنے ضرور پیش کریگی اور اپنی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کرینگی۔

بلوچ ان منصوبوں کو ضرور ناکام کرینگیں۔ 1948 سے لیکر ابھی تک لاکھوں کی تعداد میں بلوچوں کی جانیں گئیں ہیں کیا یہی ہے ترقی؟ جہاں 45 بلین کے منصوبے ہوتے ہوئے وہاں پر لوگ پانی کیلئے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، ہر روز بلوچستان میں طالب علموں کو اغواء کیا جا رہا ہے، بعد میں انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں، یہی ہے ترقی؟ بلوچستان میں اسکولوں کو فوجی کیمپوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، یہی ہے ترقی؟ گھروں سے لوگ تعلیم کیلئے نکلتے ہیں تو دوسری طرف انکی لاشیں واپس گھر آتی ہے، یہی ہے ترقی؟
بلوچ قوم جاگو جاگنے کا وقت آگیا ہے