ایران کے خلاف عسکری کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں ، جیمز میٹس

199

امریکا نے باور کرایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیوں کو بے نقاب کرے گا لیکن ان (سرگرمیوں) کے سدباب کے لیے کسی عسکری کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔

گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر نیکی ہیلے نے مشرق وسطیٰ میں ایران کی مشکوک سرگرمیوں کے حوالے سے کہا تھا کہ تہران خطے میں مبینہ طور پر تخریبی سرگرمیوں سمیت غیر قانونی اسلحہ کی فراہمی و ترسیل کررہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں ایرانی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ممکنہ امریکی فوج کے آپریشن سے معتلق سوال پر امریکا کے وزیر دفاغ جیمز میٹس نے کہا کہ ‘تاحال فوجی کارروائی کا کوئی امکان نہیں’۔

پینٹا گون میں صحافیوں سے بات چیت میں جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر ہیلے نے ذرائع ابلاغ کو ٹھوس ثبوت پیش کیے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران، یمن کے حوثی باغیوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کررہاہے۔

جیمز میٹس نے واضح کیا کہ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر پس پردہ ایرانی سرگرمیوں کو بے نقاب کررہا ہے اور خطے میں ایرانی اثر ورسوخ ختم کرنے کے لیے خطے میں استحکام کی کوشش میں مصروف ہے۔

جیمز میٹس نے ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ یمن میں حوثیوں کی مدد کے علاوہ خطے میں دیگرغیر ریاستی عناصروں کی معاونت میں ملوث ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘شامی صدر بشارالاسد نے اپنے ہی ملک کے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا اور بڑے پیمانے پر قتل وغارت کی تاہم ایران نے شامی صدر کو برسراقتدار رہنے کے لیے غیر معمولی کردار ادا کیا’۔

امریکی وزیر دفاع نے لبنان میں حزب اللہ کی حمایت کرنے کے سبب ایران کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ ‘مشرق وسطیٰ میں جہاں کہیں تخریب کاریاں جاری ہیں ان کے پس پردہ ایران شامل ہوتا ہے’۔

واضح رہے کہ امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے متعلق کہہ چکے ہیں کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف وزری کررہاہے۔

دوسری طجانب جمعے کو جاپان اور روس نے امریکا کے موقف کی حمایت نہیں کی۔

خیال رہے کہ جاپان اور روس بھی جوہری معاہدے کا حصہ تھے۔

جاپانی وزیر خارجہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے مرکزی دفتر میں صحافیوں سے بات چیت میں واضح کیا تھا کہ ‘ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے اور ہم (جاپان) معاہدے کی مکمل حمایت جاری رکھیں گے’۔

ادھر روس کے وزیرخارجہ نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ (ایران کا جوہری معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنیہ امریکی بیان کے تناظر میں) معاہدے کی حمایت نہ کرنے سے معاملات مزید پچیدہ ہو جائیں اور شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کے تجربے سے روکنے میں ناکام رہیں گے ۔

چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا نے جولائی 2015 میں ایران سے جوہری معاہدہ کیا تھا جس کے بعد امریکا اور یورپی یونین نے تہران پر عائد اقتصادی اور سفارتی پابندی اٹھانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس ضمن میں جنوری 2016 میں ایران کی جانب سے معاہدہ کی پاسداری کے بعد سفارتی اور اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔