پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے – ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ

232

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور یہ دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے‘‘۔ تاہم، اُنہوں نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’افغانستان میں موجود طالبان اور داعش کے مقاصد یکساں ہیں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا مقصد دہشت پھیلانا اور معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا ہے‘‘۔

بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے صدر دفتر میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ’’افغانستان میں داعش محض مشرقی اور شمالی علاقوں میں محدود ہے جبکہ طالبان وسیع علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں دہشت گرد گروپ بعض علاقوں میں مشترکہ کارروائیاں کر رہے ہیں، جبکہ دیگر علاقوں میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں‘‘۔

تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’دونوں دہشت گرد گروپوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ داعش اپنے جنگ جوؤں کیلئے بھرتیاں دیگر ممالک سے کرتا ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ افغانستان کی ’یونٹی گورنمنٹ‘ کسی طرح کے اندرونی اختلافات کے سبب یا اپنے مفادات کے لیے طالبان کو مرکزی دھارے میں لانے سے گریزاں ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت میں سنجیدگی کا ثبوت حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کو کابل حکومت کا حصہ دار بنانا ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان خود پاکستان کیلئے ایک خطرے کی علامت ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ اس کا قیام افغانستان میں نہیں ہوا تھا۔ تحریک طالبان کو مخصوص حالات میں اور مخصوص مقاصد کی خاطر تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن، اب وہ خود پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور یہ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ تاہم، اُنہوں نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو نے افغانستان میں بھارت کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے گزشتہ چند برسوں میں تعلیم، صحت عامہ ، توانائی اور دیگر شعبوں میں افغانستان کو دو ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ اُنہوں نے ایران کی بندرگاہ، چاہ بہار کے راستے بھارت سے گندم کی کھیپ افغانستان پہنچنے کے حوالے سے کہا کہ افغانستان کیلئے چاہ بہار کا روٹ بہت اہم ہے اور مستقبل میں اس روٹ کے ذریعے نہ صرف بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کو فروغ حاصل ہوگا، بلکہ اس کے ثمرات وسطی ایشیائی ریاستوں تک بھی پہنچیں گے۔

چین کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ پاکستان کے چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے حوالے سے افغانستان کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ چین، امریکہ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی مشاورتی گروپ کے اجلاس مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان خصوصی تعلقات کو افغانستان اپنے لئے مواقع کے حوالے سے دیکھتا ہے اور اُن کا ملک اس سے فائدہ اُٹھانے کا خواہشمند ہے۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ افغانستان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جنوبی ایشیا کیلئے اعلان کردہ پالیسی کا طویل عرصے سے منتظر تھا۔ اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، کیونکہ اس میں افغانستان کی قومی سلامتی، جمہوریت کے فروغ، کرپشن کے خاتمے اور نجی سیکٹر کی ترقی کے پہلو شامل ہیں اور یوں یہ پالیسی امریکہ کے سابق صدور کے دور میں وضع ہونے والی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے دورہٴ امریکہ کا مقصد اُن کے ملک کیلئے امریکی حمایت اور عزم کے اظہار پر امریکیوں کا شکریہ ادا کرنا تھا، کیونکہ امریکی امداد و حمایت کے باعث لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں میں مُثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ تاہم، افغانستان میں سیکورٹی کے حوالے سے اب بھی بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور دونوں ملک ملکر اُس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔