دی بلوچستان پوسٹ کے حب میں نمائنده خاص شہداد بلوچ کا بلوچستان کے ساحلی شہر گڈانی میں پاکستان چین اشتراک سے کوئلے کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ‘گڈانی اینرجی پارک’ پر خصوصی رپورٹ

پاکستانی حکومت نے چین کی مدد سے بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی میں کوئلے کے زریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا اگست 2013 میں اعلان کیا تھا کہ گڈانی میں کوئلے کی مدد سے بجلی پیداکرنے کے کْل 10 پاور پلانٹس لگائے جائیں گے۔ گڈانی اینرجی پارک کی مالی و تکنیکی معاونت کا بڑا حصہ چین نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ ان پاور پلانٹس کے قیام کا مقصد کراچی سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں کی توانائی کے ضروریات پوری کرنی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ کے نمائنده شہداد بلوچ نے پروفیسرز اور طالبعلموں کا نقطہ نظر جاننے کے لئیے لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنس۔ (LUAWMS) کا رخ کیا ۔

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے نقصانات۔

لسبیلہ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر جو کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا سخت مخالف ہے نے دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ” کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پاور پلانٹس سے نکلنے والے زہریلی گیسوں اور فضلاء کے اخراج سے بلوچستان کی ساحلی علاقے شدید متاثر ہونگےاور یہاں سے پورے کے پورے آبادیوں کو ہی منتقل ہونا پڑسکتا ہے ۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی بلخصوص گڈانی، حب کے رہائشی علاقے اور جہاں تک سمندری ہوا جائیگی وہاں تک لوگ کوئلے سے نکلنے والی گیسوں کے اخراج کے سبب متاثر ہوکر مہلک سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونگے۔ کوئلے سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائڈ گیس ماحول پر بری طرح اثر انداز ہو کر قحط سالی کا سبب بنے گی اور ڈسٹرکٹ لسبلیہ میں وندر، اوتھل اور قرب و جوارکے علاقوں میں کھیتی باڑی کے لئے تباہ کُن ثابت ہوگی اور زمیندار اپنے ذریعہ معاش سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائینگے، سمندری ہواؤں سے یہ مہلک گیس نہ صرف گڈانی بلکہ بلوچستان کی پوری ساحلی پٹی کو اپنے لپیٹ میں لے سکتے ہیں”۔

لسبیلہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم میرین سائنسز کے طالبعلم شہک بلوچ سے جب ہمارے نمائندے نے دریافت کی کہ وہ نہیں سمجھتے گڈانی اینرجی پارک سے علاقے میں خوشحالی آئیگی اور لسبیلہ میں بجلی کا مسئلہ حل ہوجائیگا؟ شہک بلوچ نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا،” آپ کیا سمجھتے ہیں یہ ترقی ہمارے لئیے ہے؟ حبکو (HUBCO) بھی تو حب شہر میں قائم ہے، اسکے بھی قیام کے وقت بلند و بانگ دعوے کئیے گئے تھے کہ اس منصوبے سے لسبیلہ میں خوشحالی آئیگی، ہر گاؤں روشن ہوجائیگا، کسانوں کی زمینیں آباد ہوجائینگی، مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جائینگی، مگر صورتحال ہمارے سامنے عیاں ہے، حبکو سے پیدا ہونے والی بجلی سے بلوچستان کے گھر اور جھونپڑیاں روشن نہیں ہوئی ہیں بلکہ یہ روشنیاں کہیں اور منتقل ہوئی ہیں، اور ملازمتوں پر بھی باہر سے آئے لوگ قابض ہیں۔ گڈانی اینرجی پارک کے قیام کا مقصد کراچی سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں کی توانائی کے ضروریات پوری کرنی ہے”۔

لسبیلہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک اور طالبعلم نوروز مینگل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے نمائندے سے کہا کہ، ” کتنی عجیب بات ہے مغربی دنیا اور ماحولیاتی ادارے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی شدید مخالفت کررہے ہیں اور بہت سے ملکوں نے اس طریقے کو رد کیا ہے کیونکہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پروسز میں خارج ہونے والی گیسیں ماحولیاتی آلودگی، قحط سالی اور گلوبل وارمنگ کا سبب بن رہی ہیں، مگر حکومت پاکستان ایسے منصوبے پر کام کرکے ہماری زندگیاں خطرے میں ڈال رہا ہے”۔

کیا چین ہم پر مہربان ہے؟

دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے شہداد بلوچ نے یونیورسٹی میں موجود صحافی حیدر بلوچ سے پوچھا کہ قوم پرستوں کا تو اسلام آباد کی نیت پر شک کرنا بجا ہے مگر آپکو ایسا نہیں لگتا کہ چین ‘گڈانی انرجی پارک’ منصوبے کا قیام مخلصی سے کررہا ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ، ” اگر چین کے یہ منصوبے مخلصی اور بلوچ قوم کی خوشحالی اور بلوچستان کی تعمیر و ترقی پر مبنی ہوتے تو چین اپنے ملک میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھروں کا خاتمہ نہیں کرتا، کیونکہ چین ان نقصانات سے بخوبی واقف ہے۔ حیدر بلوچ نے مزید کہا کہ یہ منصوبے چین کے لئیے تو فقط کاروبار ہے مگر بلوچستان کے لوگوں کے لئیے موت کا سامان ہے”۔

ان تمام خدشات کے باوجود یہ پروجیکٹ بھی بلوچستان کے دوسرے پروجیکٹس کی طرح بلوچ کے منشاء و مرضی کے خلاف شاید اپنا تکمیل پا لے، لیکن یہ بلوچستان کے ساحلی پٹی پر ایسے تباہ کن اثرات مرتب کرے گا جو نا صرف انسانوں بلکہ سمندری حیات کیلئے بھی مہلک ثابت ہوگا اور اس کا خمیازہ نسلوں تک بھگتنی پڑے گی ۔