تربت سے دی بلوچستان پوسٹ کا خصوصی رپورٹ

672

تربت میں  ایف سی اور خفیہ اداروں کی دہشت مسلسل دو ہفتوں سے برقرارہے،اگست کے مہینے میں تین پولیس اہلکاروں کو لاپتہ کرنے کے علاوہ کم از کم 50سے زیادہ افراد غائب کردیئے گئے ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں مکمل آپریشن اور گھر بار جلانے کا سلسلہ شدت سے جاری ہے۔

تربت کے علاوہ پورے ضلع کیچ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے آپریشن اور لوگوں پر جبر نمایاں کرنے پر انٹر نیٹ کی سہولت چھ ماہ سے معطل کررکھی ہے تاکہ تشدد اور جبر کو دنیا کے سامنے چھپا یا جاسکے۔ اس سال 14اگست کی مرکزی تقریب  تربت کو کامیاب بنانے کے لیئے ایف سی اور خفیہ اداروں نے یکم اگست سے تربت میں غیر اعلانیہ کرفیو نافز کر کے گھر گھر تلاشی اور آپریشن میں تین پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 50سے زیادہ افراد کو جبری حراست کے بعد لاپتہ کردیا جن میں کم سن طالب علموں کے علاوہ اسکول ٹیچرز، دکان دار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں ۔

اطلاع کے مطابق خفیہ اداروں نے سنگانی سر تربت سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی ختم کر کے واپس گھر جاتے ہوئے11اگست کو لاپتہ کیا تھا جبکہ ایک پولیس اہلکار کو گزشتہ روز جبری حراست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ خفیہ اداروں نے کئی اہلکاروں کو دوران ڈیوٹی اٹھا کر لاپتہ کیا۔

اس سے قبل تربت میں 14اگست کی مرکزی تقریب ایف سی سائوتھ ریجن تربت کے زیر اہتمام منانے کا اعلانن کیا گیا تھا جس میں تمام سرکاری ملازمین کو حاضر رہنے کی سخت ہدایت دی گئی تھیں ۔14اگست کی رات کیچ فٹ بال اسٹیڈیم میں تقریب منعقد ہوئی تھی جس کے مہمان خاص آئی جی ایف سی تھے جس میں بلوچستان کے کم و بیش مکران ڈویژن کے تمام نمایاں سیاسی رہنمائوں کو شریک کیاگیا جن میں میر محمد علی رند، سید احسان شاہ، اصغر رند، ظہور بلیدی، ڈاکٹر اسماعیل بلیدی نمایاں تھے ان کے علاوہ چھوٹے بڑے متعدد سیاسی لوگ بھی تقریب میں شریک تھے ۔ اس تقریب میں مزکورہ بالا رہنمائوں کو پاکستان کا جھنڈا تھما کر انہیں اسٹیج پر کھڑا کر کے بچوں کی طرح جھنڈا لہرانے کا حکم دیا گیا جس کی انہوں نے تعمیل کرنے کے علاوہ ہر ایک نے اسٹیج پر چند منٹ فوج کے حق اور بلوچ مزاحمت کے خلاف تقریر کر کے اپنی وفاداری نبھانے کی بھر پور کو شش بھی کی۔

وفاداری نبھانے والوں میں ظہور بلیدی اور اصغر رند سب سے بازی لے گئے جنہوں نے پاکستانی فوج کے مظالم کو سراہتے ہوئے بلوچ تحریک کو بلوچستان کی محرومیوں اور پسماندگی کا سبب قرار دیا۔
اس تقریب میں عوام کی دل چسپی نہ ہونے کے برابر تھی مگر بندوق کے زریعے عوام کو جبری طور پر تقریب میں شامل کرانے کا انتظام کیا گیا تھا ۔

تقریب کے دوران خواتین اور حاضرین میں تحفے تقسیم کیئے گئے ۔ ایک زرائع کے مطابق ایسا ہی ایک تحفہ کسی شخص کو دیا گیا جس میں زنانہ کپڑے تھے جنہیں وہ گھر لے گیا اور ایف سی کا تحفہ اپنے بیوی کو دیتے ہوئے کہاکہ غلطی سے انہیں مردوں کے بجائے زنانہ کپڑے ایف سی نے دیئے ہیں دوسری جانب ان کے بیوی نے تاریخی جملہ ادا کرتے ہوئے اپنے شوہر کو مخاطب کیا اور کہاکہ ایف سی نے یہ کپڑے غلطی پر نہیں بلکہ آپ کو دیکھ کر دیئے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اب بلوچ مرد برائے نام مرد ہیں انہیں آپ کی زنانہ پن کا معلوم ہے اس لیئے بہتر ہے کہ یہ کپڑے آپ خود سی کر پہن لیں مجھے ایف سی کا دیا تحفہ نہییں چاہیے۔ زرائع کے مطابق اس خاتون کے تاریخی جملے کا تذکرہ جب اپنے دوستوں سے کیا تو شرم کے مارے سب کے سر جھک گئے اور وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے ہوئے اپنی بے شرمی پر خاموش رہے ۔