بلوچ سماج کو فکری حوالے سے ختم کرنے کیلئے طالب علموں کو لاپتہ کیا جارہا ہے – ماما قدیر

226

وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ سماج کو فکری حوالے سے ختم کرنے کیلئے بلوچ اکیڈمکس کو متواتر لاپتہ کررہی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے ان خیالات کا اظہار ایک ایسے موقع پر کیا جب ضلع خاران سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ایم فل کے طالب علم ثناء سیاپاد کے فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کی خبر سامنے آئی۔

ماما قدیر بلوچ نے دو روز قبل تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیئے جانیوالے بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتان کے طالب علم ناصر ولد پھلان اور  اوتھل یونیورسٹی کے طالب علم جہانزیب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ثناء سیاپاد کا تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کے علاقے سے ہیں۔

خیال رہے بلوچستان نیشنل پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ چھ نکاتی معاہدے کے تحت مرکزی حکومت میں ان کی حمایت کی تھی جبکہ معاہدے میں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی سرفہرست ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس کو آج 3956 دن مکمل ہوگئے جبکہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کیا۔

طالب علم  ثناء سیاپاد کے گمشدگی کیخلاف سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کمپئین کا آغاز کیا جاچکا ہے جس میں مختلف مکاتب کے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

طالب علم رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس حوالے سے لکھا کہ بلوچستان ترقی کی راہ پہ گامزن ہے، لاپتہ افراد کے ناموں میں ترقی ہوتی جارہی ہے، ایم فل سکالر بھی اب اس ترقی کا حصہ ہے۔ ہر دن ایک نیا نام، ایک نایاب ہیرا خونی ریاست کے زندان کی زینت بنا دی جاتی ہے۔ آج کا ثناء کا دن ہے۔

متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ نے لکھا ہے  کہ ظلم کو جائز منوانے کے لیے خواں کتنے ہی جواز فرائم کریں، آخر میں ظلم، ظلم ہی رہتا ہے۔ بلوچ قوم کے سب سے قابل ہونہار طالب علموں کو پس زندان میں رکھنا ظالم کے ظلم و جبر کی مثالیں ہیں جنہیں کوئی کسی طرح جٹھلا نہیں سکتا۔