بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 8 – برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد

451

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 8 | برطانوی جاسوسوں کی آمد اور ان کے مقاصد (حصہ دوئم)

مورخین کے مطابق بلوچستان میں داخل ہونے والا پہلا یورپی باشندہ سکندر اعظم تھا جو 326ق م میں اپنی ہندوستانی مہم سے واپسی پر سندھ سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے جنوبی خطوں یعنی لسبیلہ اور مکران میں سے ہوتے ہوئے عازم ایران ہوا تھا(6) مگر یہاں ذرا تصحیح کی ضرورت ہے کیونکہ جدید تحقیق اور تاریخی ذرائع یہ ثابت کرتے ہیں کہ بلوچستان یونانی مداخلت سے بھی بہت پہلے سے ایک تجارتی گزر گاہ تھی لہٰذا ممکن ہے کہ سکندر سے قبل کئی دیگر یورپی مہم جوئوں نے اس خطے میں مداخلت کی ہو۔ گو کہ وسیع پیمانے پر ایسی معلومات ناپید ہیں مگر بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کی مشہور زمانہ کتاب تاریخ ہیرو ڈوٹسHistory of Herodotes کے مطابق ہیروڈوٹس نے بذات خود ایک سرکاری آفیسر اور اہم ترین نمائندے کے طور پر اس خطے کی سیاحت کی تھی ۔ اپنی کتاب میں وہ بلوچستان کی جغرافیائی حالات کے ساتھ ساتھ بہت سے اہم بلوچ قبائل کا تذکرہ بھی کرتا ہے(7) اسی طرح مکران کے ساحلوں پر برطانوی مداخلت سے قبل پرتگیزی قزاقوں نے حملے کیئے اور یہاں کالونی یعنی نوآبادیات بنانے کی کوشش کی تو مکران کے سپوتوں نے انہیں ساحلوں پرٹکنے نہیں دیا اور شدید ہزیمت دے کر بھاگنے پر مجبور کیا۔(8) بہر حال پوٹینگر اور کرسٹی اہم برطانوی نمائندوں کی حیثیت سے مگر بھیس بدل کر بلوچستان میں داخل ہوئے اور بلوچستان کی آنے والی تاریخ کو بدلنے کا سبب بنے۔ اگر ان کا کردار دیکھا جائے تو بالکل وہی تھا کہ جو میجر لارنس نے مشرق وسطیٰ میں ادا کیا تھا اور اسلامی خلافت کو نہ صرف توڑنے کا سبب بنا تھا بلکہ عرب ترک تنازعہ بھی اسی نے پیدا کیا تھا 9)( بالکل اسی طرح پوٹینگر نے بلوچستان میں بلوچ براہوئی تنازعہ کو پیدا کیا اور اس کے سبب بلوچستان میں آگ لگانے کی مذموم کوشش کی کہ جو ان کو تفویض کرنے والی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا۔

            1910 ء میں پوٹینگر اور کرسٹی کا بلوچستان میں ورود ہوا خود پوٹینگر کے مطابق ،

            ’’ شام گئے کرسٹی اور میں 2 جنوری 1810ء کو ایک چھوٹی سی مقامی کشتی میں بمبئی کی بندرگاہ سے سوار ہوئے جو ہمیں سونمیانی بندر تک پہنچانے کے لئے کرائے پر لی گئی تھی یہ فوراً ہی روانہ ہوگئی۔ اگلی صبح طلوع آفتاب پر ہم نے دیکھا کہ ہماری جماعت مانجھیوں کو چھوڑ کر دو ہندوستانی ملازموں سندرجی کے گماشتہ اور اس کے نوکر اور گھوڑوں کے متعدد افغان سوداگروں پر مشتمل تھی جو اپنے وطن کو واپس جارہے تھے اور جنھیں ہم نے یہ سوچ کر بٹھا لیا تھا کہ ان کی آشنائی اترنے پر کار آمد ہوگی ۔(10)

            وہ مزید لکھتا ہے کہ :

            ’’جب ہم ساحل سے روانہ ہوئے تو کافی اندھیرا ہو چکا تھا اور چونکہ ایک تازہ بتازہ نسیم بحری چلنے لگی اور ہم رات گئے سوار ہوئے تھے لہٰذا ہمیں ہمسفروں کے پالینے کا خطرہ کم تھا پھر بھی ہم نے ایسے کامیابی سے بھیس بدلا اور یورپی لباس کو مقامی لباس سے تبدیل کیا کہ افغان ہمیں رنگ کے اعتبار سے یورپی سمجھنے کے باوجود ہمارے اصل کرداروں پر ذرہ بھر بھی شک نہ کر سکے۔ ان میں سے دو تین ہمیں ذہین اور شائستہ معلوم ہوئے اور انہوں نے ایسی معلومات بہم پہنچائی جو فوری طور پر دلچسپ تھیں اور بعد میں ہمیں منصوبے بنانے کے لئے بہت ممدو معاون ثابت ہوئیں ۔‘‘(11)

            درج بالا دو اقتباسات ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان نووارد برطانوی جاسوسوں کی نیت کتنی خراب تھی اور وہ کتنے خطرناک ارادوں کے ساتھ بلوچستان کی جانب بڑھ رہے تھے گو کہ وہ بظاہر سیاح تھے مگر وہ جانتے تھے کہ انہیں اپنی سلطنت کی عظمت کو چہار سو پھیلانے کے لئے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں کہ وہ سیاحت کے ذریعے اپنے ہدف کو پالیں اور خطہ بلوچستان و سیستان و افغانستان سمیت ایرانی خطے کا سیاسی و جغرافیائی جائزہ لیں اور ساتھ ہی ساتھ ان جاسوسوں نے اپنی ذہنی استعداد کے مطابق برطانوی سامراج کے لئے راستہ صاف کرنے کے امکانات کا جائزہ لے کر اپنی حکومتوں کو اطلاع فراہم کرنا تھا ان کی ذہنی استعداد نے یہاں پر مستقبل میں کئی سوالات کو جنم دیا اور کئی قومی اور جغرافیائی مسائل پیدا ہوئے یہ ہرگز ضروری نہیں کہ انگریز جاسوسوں کی تمام تحریریں اور بیانات درست ہوں یہ ذہن میں رہے کہ ان کا مقصد جاسوسی کرنا تھا اور وہ جو کچھ تحریر کررہے تھے اپنے ملکی و قومی مفادات کے حصول کی خاطر کررہے تھے ۔ وہ ہر ممکن کوشش سے یہاں کے مقامی ماحول کے لئے مسائل جبکہ اپنے آقائوں، حکمرانوں اور جرنیلوں کے لئے آسانیاں پیدا کررہے تھے ۔ ان بیانات کی درستگی یا غیر درستگی کا اندازہ ان کی اپنی تحریروں سے ہوجاتا ہے مثلاً پوٹینگر اپنے سفرنامے میں نوشکی کے قریب سنگ مرمر کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے(12) جو مستقبل میں حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور آج ان پہاڑوں سے بھاری مقدار میں سنگ مرمر حاصل کیا جارہا ہے ۔ مگر اس کے بعض بیانات حقائق کے بالکل برعکس ہیں ۔ مثلاً قبلہ کو حضور پاکؐ کا مزار بتانا، مسلمانوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ گوشت کے ہر لقمہ کو کھانے کے بعد منہ دھوتے ہیں۔ حضور پاک ؐکے متعلق یہ کہنا کہ وہ جب بیرون ملک نکلتے تھے تو کئی ممالک کا چکر کاٹتے تھے ہندوستان کے قدیم شہنشاہوں کو باختری (سیلوکسی) آشکانی اورساسانی حکمرانوں کا باجگزار بتانا (13) حتیٰ کہ وہ شکست خوردہ خوارزم (علائوالدین خوارزم شاہ اور جلال الدین خوارزم شاہ) کے متعلق یہ لکھتا ہے کہ انہوں نے منگولوں کو ایران سے نکال کر سندھ میں آباد ہونے پر مجبور کیا تھا 14) ( اس طرح کے بے معنی اور غلط قسم کے بیانات کی برطانوی تحریروں میں بھرمار ہے۔ حالانکہ یہ وہ موضوعات تھے کہ جو ان کے فوجی مشن کا حصہ نہیں تھے مگر انہیں اپنی استعداد کے مطابق ان علاقوں میں بے چینی اور انتشار پیدا کرنے اور پھوٹ ڈالنے کی اجازت تھی ۔ لہٰذا وہ اسی طرح کی بے تکی باتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔