بلوچستان اور برطانوی مؤرخین | قسط 24 – برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات

950

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

بلوچستان اور برطانوی مؤرخین
مصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

قسط 24 | برطانوی جاسوسوں کی آمد کے اثرات (آخری حصہ)

انگریزوں کی آمد سے قبل بلاشبہ بلوچستان یا بلوچ قوم میں تحریر و خواندگی کا کوئی رواج نہ تھا مگر ان کا ادب تاریخ نویسی، شاعری، افسانہ، ڈرامہ، ناول جیسے خیالات و تاثرات سے بھر پور تھا۔ بلوچی اور براہوئی زبانوں کی قدامت میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہزاروں سالہ قدیم زبانیں ہیں جو اپنے محل وقوع کے علاوہ ایران، افغانستان، وسطی ایشیاء کے چند ممالک، خلیجی عرب ممالک، سندھ، پنجاب اور ہندوستان تک میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کا دائرہ کار بے شک بہت وسیع ہے اور بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بھی حوصلہ افزاء ہے مگر بدقسمتی سے ماضی میں نہ تو حکومتوں نے ان زبانوں کی ترویج و ترقی پر کوئی توجہ دی اور نہ ہی خود بلوچ قبائل میں خواندگی کا کوئی رجحان تھا۔ نہ ہی بلوچوں نے تاریخ نویسی کی اور نہ ہی زبان و ادب کو تحریری شکل دی تھی۔ چونکہ بلوچستان ہمیشہ بیرونی حملوں اور قبضوں کی زد میں رہا اور ہمیشہ طاقتور قوموں نے اسے فوجی اور تجارتی گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا۔ لہٰذا انہوں نے مقامی زبانوں کو ترقی دینے کی بجائے ان پر ہمیشہ اپنی زبانوں مثلاً عربی، فارسی وغیرہ کو مسلط کیا لہٰذا اگر یہاں سے کوئی خواندہ شخص ہوتا بھی تو بھی اس کی تمام تر تعلیم عربی یا فارسی میں ہوتی تھی نہ کہ بلوچی یا براہوئی میں۔ میر نصیر خان نوری کے دور میں جتنے مدارس قائم ہوئے ان میں بھی بلوچی یا براہوئی زبانوں کی تعلیم مفقود تھی اور ذریعہ تعلیم فارسی اور عربی زبانیں تھیں۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر بلوچی و براہوئی زبان و ادب ترقی نہ کرسکیں اور یہ زبانیں صرف بولنے کی حد تک محدود رہیں۔ حالانکہ بلوچی میں اشعار کا سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا تھا اور بڑے بڑے قبائلی سردار حتیٰ کہ خوانین قلات بھی شاعری کرتے تھے مگر وہ انہیں تحریر کرنے کی بجائے میراثیوں (ڈومب) کو زبانی سناتے تھے۔ یہ ڈومب بلا کے ذہین ہوتے تھے کہ جو ایک بار یہ اشعار سن کر انہیں نہ صرف ازبر کرلیتے تھے بلکہ انہیں نسل در نسل منتقل بھی کرتے تھے۔ رند و لاشار دور میں اس شاعری نے کمال عروج حاصل کیا اور شاعری کی کئی اصناف کو متعارف کروایا۔ مگر صدیوں تک شاعری کا سلسلہ ازبر طریقے سے چلتا رہا۔ تاآنکہ مسٹر لانگ ورتھ ڈیمز نے اس تمام سلسلے کو کتابی شکل دی۔ 1907ء میں اس صدیوں پرانی شاعری نے بالآخر تحریری شکل پالی۔ مگر یقینی بات ہے کہ یہ ہونے والی شاعری کا ایک فیصد بھی نہ ہوگا کیونکہ پندرہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں شاعر آئے ہوں گے۔ جن کا کلام زمانے کے ساتھ ساتھ فنا ہوچکا ہوگا۔ مگر یہ احسان بھی کم نہ تھا کہ ڈیمز نے کسی نہ کسی حد تک اس شاعری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہونے سے بچا لیا، لہٰذا ڈیمز کے بعد بھی مقامی سطح پر بلوچی زبان و ادب پر لکھنے اور انہیں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور بیسویں صدی میں بے شمار مصنفین نے اس سلسلے میں کام کیا اور بلوچی زبان کی زبانی روایات کو زندہ رکھنے کے ساتھ انہیں تحریری شکل دینے کا مستحسن کام کیا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس سلسلے کو پہلی جنبش قبضہ گیر انگریز نے دی تھی۔

            ڈیمز سے قبل جب برطانوی تبلیغی مشن نے براہوئی زبان بولنے والے بلوچ علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور براہوئی قبائل میں عیسائیت پھیلانے کی خاطر براہوئی زبان میں بائبل کا ترجمہ کرکے اس کی کاپیاں لوگوں میں تقسیم کرنے لگے تو براہوئی زبان کے ممتاز عالم دین اور مجاہد مولانا محمد عمر دین پوری نے قرآن پاک کا براہوئی زبان میں ترجمہ کرکے براہوئی قبائل کو اسلام پر کاربند رکھا اور عیسائی تبلیغی مشن کے مقاصد اور کوششوں کو ناکام بنایا ۔ یہ قرآن پاک کا براہوئی زبان میں پہلا ترجمہ تھا ۔

            اسی طرح کوردگال نامک نامی کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے خوانین قلات کے ادوار میں آخوند صالح محمد نے تحریر کیا تھا مگر اس کتاب کی اصلیت اور استناد میں شک ہے۔ البتہ آخوند محمد صدیق نے (جو کہ میر محراب خان کے دور میں وزیراعظم قلات تھا اور اسے میر خدائیداد خان اور اس کے بڑے بھائی میر نصیر خان ثانی نے وزارت سے ہٹا دیا تھا کیونکہ وہ اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے اور اسے انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتے تھے) اخبار الابرار نامی کتاب تحریر کی ہے مگر یہ فارسی میں لکھی گئی ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ میر گل خان نصیر نے تاریخ خوانین قلات کے عنوان سے کیا ہے۔

            البتہ انگریزوں کی متعارف کردہ طریقے کے مطابق بلوچستان میں بلوچی اور براہوئی زبانوں پر باقاعدہ اور وسیع تر کام کا آغاز بیسیوں صدی کے آغاز میں ہوا۔ یہ برطانوی جاسوسوں کی آمد ان کی تحریروں اور بعد ازاں دیگر انگریزوں کی تحریروں کا ہی اثر تھا کہ بلوچستان میں بھی زبان وادب اور تاریخ کو محفوظ و مامون رکھنے کی خاطر تحریر و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا اور ان زبانوں کی ترقی و ترویج شروع ہوئی اور آج یقیناً براہوئی ایک اہم ترین اور بلوچی عالمی زبان کا درجہ اختیار کر چکی ہیں، ان دونوں زبانوں اور بلوچستان کی تاریخ و ادب پر لکھنے والے لاتعداد علماء کی بے شمار کتابیں دستیاب ہیں جو یقیناً اہم ترین نسخہ جات ترقی و ترویج زبان و ادب بلوچی و براہوئی مانے جاتے ہیں۔

            وہ قوم کہ جس کی آمد کی وجہ سے بلوچی و براہوئی زبان میں تحریر و چھپائی کا سلسلہ شروع ہوا اور جنہوں نے بلوچ اور براہوئی قبائل کے لئے وحشی اور غیر مہذب جیسے ناشائستہ الفاظ استعمال کیئے آج ان ہی ممالک کے نشریاتی ادارے بلوچی زبان میں طویل پروگرام پیش کرتے ہیں۔

            برطانیہ کی آمد اور قبضہ اور بالخصوص جاسوسوں کی معلومات اور تحریروں نے بلوچستان کو برطانیہ کے لئے انتہائی اہم قرار دیا اور برطانیہ نے جس طرح یہاں اپنا تسلط قائم کیا اوراس خطہ کو اپنے دائرہ اختیار میں لیا تو یقیناً کسی بھی ملک کے ایسے عمل سے دوسرا ملک اور معاشرہ شدید طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جدید دور میں بھی اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لہٰذا بلوچستان بھی برطانوی تسلط کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ اثرات جن کا تذکرہ درج بالا اوراق میں ہوچکا ہے۔ ان کے علاوہ بھی بلوچستان کئی طرح سے متاثر ہوا۔ البتہ جس طرح درج بالا اوراق میں مذکور اثرات میں سے بعض انتہائی منفی نتائج کے حامل تھے تو چند ایک اچھے اور مثبت اثرات بھی رکھتے تھے۔ بہر حال یہ یقینی بات ہے کہ برطانیہ یا کوئی بھی دوسرا فاتح، مفتوح کی فلاح و بہبود اور ترقی کی خواہش نہیں رکھتا بلکہ اسے صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اور وہ جو بھی عمل کرتا ہے اس میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے مگر حقیقت نہیں چھپ سکتی اور آنے والا وقت تحقیق و تفتیش سے ان حقائق کو آشکارا کرتا ہے کہ جنہیں بددیانت فاتح نے وقت کی راکھ میں دفن کیا تھا اور آج وہی برطانوی الفاظ تحقیق کے بعد نہ صرف یہ کہ غلط ثابت ہو رہے ہیں بلکہ اصل حقیقت کہ جنہیں انہوں نے دفن کردیا تھا دوبارہ جی اٹھی ہے۔

حوالہ جات :

.1        محمد سردار خان بلوچ، ہسٹری آف بلوچ ریس، گوشہ ادب، کوئٹہ، 1958،6
.2        شاہ محمد مری ، بلوچ قوم قدیم عہد سے عصر حاضر تک، تخلیقات، لاہور، 2000،43
.3        میر احمد یارخان بلوچ، تاریخ خوانین بلوچ، اسلامیہ پریس، کوئٹہ، 1974،9
.4        آغا نصیر خان احمد زئی کمبرانی، تاریخ بلوچ و بلوچستان (جلد اول)، بلوچی اکیڈیمی ، کوئٹہ، 1982،5
.5        میک کرنڈل، انویژن آف انڈیا بائے الیگزینڈر دی گریٹ، انڈس پبلیکیشنز، کراچی، 1982،21,22
.6        ہیرلڈ لیم۔ سکندر اعظم، مترجم، غلام رسول مہر، فکشن ہاؤس، لاہور، 2006،سیکنڈ ایڈیشن
.7        ڈاکٹر عبدالرحمٰن براہوئی،بلوچستان میں عربوں کی فتوحات اور حکومتیں،زمرد پبلیکیشنز، مستونگ، 1998،112
.8        گنڈا سنگھ، احمد شاہ درانی، گوشہ ادب، کوئٹہ،1990،214
.9        ایچ۔جی۔ریورٹی، سرزمین افغان و بلوچ، مترجم: پروفیسر سعید احمد رفیق، نساء ٹریڈرز ، 1999،801, 02
.10     جی۔لی، سٹرینج، جغرافیہ خلافت مشرقی، مترجم:محمد جمیل الرحمان، مقتدرہ قومی زبان ،  اسلام آباد،1986،501
.11     مولانا منہاج الدین سراج، طبقات ناصری، انگریزی ترجمہ، ایچ ۔ جی۔ ریورٹی، ایشیاء ٹک سوسائیٹی، کلکتہ،انڈیا،1995(سیکنڈ ایڈیشن)، 1018
.12     عنایت اللہ بلوچ، دی پرابلم آف گریٹر بلوچستان، جی ایم بی ایچ، سٹٹ گرٹ، جرمنی، 1987،19
.13     احمد حسین صدیقی، گوہربحیرہ عرب (کراچی) محمد حسین اکیڈمی، فیڈرل بی ایریا، کراچی، 1995،14
.14     اے ڈبلیو ہیوز،دی کنٹری آف بلوچستان، مترجم،ایم انور رومان، نساء ٹریڈرز، کوئٹہ، 2011،سیکنڈ ایڈیشن،12
.15     ایضاً،22-23
.16     ایضاً،228
.17     میر گل خان نصیر، تاریخ بلوچستان، قلات پبلشرز، کوئٹہ،2000،91
.18     بلوچ، فاروق ، خان اعظم میر نصیر خان نوری، حکومت، سیاست، کردار اور شخصیت، فکشن ہاؤس،لاہور،2012،220
.19     ایضاً،225
.20     ہنری پوٹینگر، ٹریول ان سندھ اینڈ بلوچستان، مترجم: پروفیسر ایم انور رومان، نساء ٹریڈرز،کوئٹہ، 1983،سیکنڈایڈیشن،58
.21     میر گل خان نصیر،313,14
.22     ایضاً،146-48,156-59
.23     میر احمد یار خان بلوچ،3
.24     میر گل خان نصیر،162
.25     ڈاکٹر شاہ محمد مری،271


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔