بلوچ و بلوچستان، قدیم مورخین کی نظر میں – جعفر قمبرانی

592

بلوچ و بلوچستان، قدیم مورخین کی نظر میں

تحریر۔ جعفر قمبرانی

دی بلوچستان پوسٹ

زیر بحث کتاب ” بلوچ و بلوچستان قدیم مورخین کی نظر میں ” 390 صفحات، چار ابواب اور پانچ موضوعات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب عظیم تکفیری و تحقیقی بلوچ تاریخ دان بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور بلوچستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فاروق بلوچ کی شان دار تخلیق اور تحقیقی کاوش ہے . زیر نظر کتاب ڈاکٹر صاحب کی دوسرے کتابوں طرح کی ایک مکمل، جامع، تحقیقی اور تفصیلی اشاعت ہے جس میں تمام تر معلومات قدیم عربی، فارسی و یونانی مورخین کی تصنیفات سے لی گئی ہیں جن کو من و عن قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس کتاب کی مختصراً جائزہ لینے سے پہلے اس میں کی گئی کمی و کوتاہیوں، سمجھنے اور بیان ہونے والے تمام غلطیوں کیلئے اسکے مصنف ڈاکٹر فاروق سے پیشگی معزرت خواہ ہوں۔

میں سمجتھا ہوں کہ یہ کہنا سراسر غلط اور نا انصافی ہوگی کہ ڈاکٹر فاروق بلوچ نے بلوچ و بلوچستان کی تاریخ کو ایک نیا موڑ دیا، بلکہ انہوں نے بلوچ و بلوچستان کی تاریخ کو اپنے اس پرانے ڈگر پر چلانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے جہاں اسے اصل میں ہونا چاہیے تھا نا کہ مختلف حملہ آوار، زور آوار اور برطانوی نوآبادیاتی و فسادی حکمرانوں نے جیسے چاہا اسے بدل ڈالا۔

مصنف نے مذکورہ کتاب کے پہلے حصے میں 16 سو صدی کے بعد آنے والے برطانوی فوجی اور سول آفیسر موٌرخین کو غلط اور بلوچ تاریخ کو بگاڑنے کا زمہ دار ٹھہراتا ہے جنہوں نے ایک تو بلوچ سرزمین پر تاریخ نویسی کا سہرا اپنے نام کردیا تو دوسری جانب بلا تحقیق لالچ، خوشامد، تقسیم اور جھوٹے تعریفوں کے پل باندھنے سے یہاں کے لوگوں پر قابو پاکر صدیوں تک حکومت کرنے میں کامیاب رہیں۔ اُنہیں چند برطانوی مؤرخین میں موصوف لالا ہتورام، ایچ جی راؤلنسن، اربرٹن، ہنری پوٹنگر، تھامس ٹی ہولچ اور کہی دیگر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ ان تاریخ و تاریخی اہمیت سے ناواقف مؤرخین نے کس طرح مقامی لوگوں کو دھوکے میں ڈال کر انکی تاریخ کو مسخ کیا۔ حیرت کی بات یہ کہ ان (انگریز) مورخین کے آپس کے نظریات، بیانات اور تصانیف میں بھی کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مزید برآں! مصنف خود بلوچ مؤرخین کی لکھی گئی بلوچستان کی تاریخ پر اشاعات کو برطانوی تاریخی تحریروں کا حصہ سمجھتے ہوئے نامعقول اور غیر تحقیقی کام بتاتے ہے۔ وہ لکھتے ہے کہ درحقیقت جس بلوچ مؤرخ نے جس انگریز لکھاری کو پڑھا اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے مزید کوج لگانے کی زحمت کئے بغیر کوچ و بلوچ تاریخ کو تہس نہس کر ڈالا۔ اور وہ بلوچوں کو عراق کے قدیم سامی النسل کلدانی خاندان، کبھی وشط ایشیائی نسل، کبھی آرین تو کبھی مختلف حملہ آور گروہوں کی باقیات ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ برطانوی جرنیلوں کی طرح ان بلوچ مؤرخین کے بیانات میں بھی بہت سے متنازع اور مختلف نظریاتی اشاعات پائے جاتے ہیں۔ جو کہ ایک دوسرے کے بیانات و دلائل سے میل نہیں کھاتے۔

کتاب کی دوسری اور سب سے بڑی باب میں مصنف بلوچ و بلوچستان کی تاریخ اور اس سرزمین پر تاریخ نویسی کو بہت پرانی اور دیرینہ کام لکھتے ہوئے خاتم النبیین محمد الرسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے پہلے کے مشہور ساسانی بادشاہ نوشیرواں عادل کے زمانے اور اس سے بھی پہلے قبل مسیح میں بلوچوں کی سرزمین پر بلوچ قوم کی موجودگی کو مختلف شاعر و مورخین کے تحریروں سے ثابت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کے تصنیفات، محمود غزنوی کے دور کے مشہور شاعر و عالم ابو القاسم فردوسی کے اشعار، مشہور یونانی مؤرخ ایرین، معروف عربی تاریخ دان ابن حوقل کے بلوچستان پر عرب حملوں کی روداد، بابائے مسلم تاریخ نویس عبد الرحمن ابن خلدون کے بلوچ قوم کی سرزمین و قدیم بلوچ اقوام کی منظم سیاسی، سماجی عسکری اور معاشی حالات کا جائزہ اور بہت سارے دیگر مؤرخین کا ذکر کرتے ہے۔

فردوسی کے مشہور کتاب شاہنامہ میں ان اشعار سے قدیم بلوچوں کا اس سرزمین پر موجود ہونا ثابت ہوتا ہے کہ
سپاہی زگردان کوچ و بلوچ
سگالید جنگند مانند قوچ
ہمی از پہلی پارس کوچ و بلوچ
زگیلانِ جنگی و دشتِ سروچ”
دریں اثنا، مصنف نے مولانا عبدالکلام آزاد جو کہ ہندوستان کے مشہور و معروف ادیب و دانشور تھے کہ تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ عبدالکلام آزاد نے ہخامنشی بادشاہ سائرس اعظم کو قرآن مجید کے سورہ کیف میں بیان کیا گیا شخصیت ذوالقرنین کہا ہے جو 600 قبل مسیح میں بلوچ آبادی والے خطوں پر ایک حملہ آوار کی طرح نمودار ہوئے تھے۔

ڈاکٹر فاروق بلوچ لکھتے ہیں کہ ان قدیم یونانی، عربی و فارسی مؤرخین نے قدیم بلوچ اقوام مید، پرکانی، کرد، ہوت، مامشئی اور کولاچی سمیت مختلف قدیم بلوچ آبادی والے علاقوں کا ذکر بھی کیا ہے جو کہ ایران، افغانستان و موجودہ بلوچستان میں آج بھی بلوچ آبادیوں پر مشتمل ہیں جن میں سیستان، کرمان، مکران، المہند، بیلوس، بالس، بالشتان، کوہ زاگروس، گیلان (مستنج) مستونگ (قصدار یا قنبزدار)خضدار کوہ دشت، کیکانان، کوہ البرز ایران اورطوران شامل ہیں۔

مزید لکھتے ہے کہ قدیم مورخین نے قوم بلوچ کیلئے اپنے اپنے زبان اور لہجوں کے مطابق مختلف نام استعمال کئے ہیں جیسا کہ قفص، بلوس، بالس، بلوص، بالش، کوچ و بلوچ وغیرہ ہیں اور انہیں مورخین نے قدیم بلوچوں کی بہادری و اتحاد و اتفاق کی جو مثالیں لکھی ہیں ان میں عرب حملوں اور فتوحات قابل ذکر ہیں کہ ایران پر عرب حملہ آوروں نے دس سال کے عرصے میں قبضہ مکمل کرلی اور فتح یاب ہوگئے تو سندھ کو صرف تین سالوں میں مشہور اسلامی جرنیل محمد بن قاسم کی سربراہی میں فتح کی مگر بلوچستان کی منظم و مضبوط سیاسی و عسکری قیادت کے باعث عرب حملہ آوروں کو اس سرزمین کو فتح کرتے کرتے اڑسٹھ سال لگ گئے۔ اور یہی نہیں بلکہ کجا 1600 صدی اور کجاء اسلامی سلطنت کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق کہ جن کے خلافت میں مکران فتح ہوتی ہے تب بھی قدیم بلوچ اقوام بزورِ شمشیر اپنے جدی پشتی علاقوں کی حفاظت کرتے ہوئے عرب حملہ آوروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کرتے ہیں اور خارجی، جنگجوں قزاق اور مختلف ناموں کے ساتھ مشہور ہوتے ہیں۔

تاہم ڈاکٹر فاروق بلوچ نے قدیم عرب، فارسی یونانی اور انگریز مورخین کو دیگر مؤرخین کی طرح نرگسیت میں ڈوبا ہوا لکھا کہ ہر چند فاتح قوموں کی طرح انہوں نے بھی بلوچ پرامن آبادیوں پر حملے کئے اور بلوچوں کی انکے سامنے سر نا جکھانے، گھٹنے نا ٹیکنے اور اپنے سرزمین سے گزرنے والوں پر ٹیکس عائد کرنے پر بلوچ قوم کو ڈاکوں، قزاق، لٹیرے اور خارجی لکھتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قوم نے ہمیشہ سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور سر خم تسلیم کرنے سے بہتر سروں کی قربانی کو جانا۔ دوسری جانب لکھتے ہیں کہ اگر بلوچ ڈاکوں قزاق اور لٹیرے ہوتے تو اپنے سرزمین سے گرزتے مغل بادشاہ نصیرالدین ہمایوں فاتح جیسے امیر مگر شکست خوردہ لوگوں کو لوٹتے نا کہ لنگڑے لولے اونٹوں اور گھوڑوں والے تن تںہا دہی دست مسافروں کو۔

پس، اس کتاب کو پڑھنے سے قارئین پر اول تو یہ راز عیاں ہو جائیگی کہ بلوچ اپنے موجودہ سرزمین پر صدیوں سے آباد ہیں نا کہ وہ باہر سے آنے والا کوئی آرین یا عرب ہے۔ دوئم یہ کہ اس کتاب کی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب کی نصف سے بھی زیادہ حصہ قدیم مورخین کی بلوچ قوم سے متعلق مختلف موضوعات پر مشتمل ہے پس یہ ثابت ہوتی ہے کہ راقم نے اس کتاب کو لکھنے سے پہلے کافی تلاش،جستجو اور تحقیق کی ہے اور اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں