خضدار کے تعلیمی اداروں کی بد حالی – یونس بلوچ

387

خضدار کے تعلیمی اداروں کی بد حالی

تحریر: یونس بلوچ (صحافی خضدار پریس کلب)

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کا حل ہماری مستقبل کا تعین کرتی ہے اور اگر ان مسائل کا حل ممکن نہ ہو تو اس کے مضر اثرات ہماری مستقبل کو بھیانک بنا دیتے ہیں، تعلیمی مسائل بھی ایسے ہی ہیں۔ آج بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے ضلع خضدار کے تعلیمی اداروں کے مسائل اور ان مسائل کو حل نہ کرنے کی پاداش میں ضلع کی شرح تعلیم میں کمی ہونے کے حوالے سے خضدار پریس کلب میں تفصیلی پریس کانفرنس کی، ان کا کہنا تھا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام کو 31 سال ہو گئے اس کے بعد ہم عصر تعلیمی اداروں میں آج درجنوں ڈیپارٹمنٹس بن گئے ہیں مگر انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار تا حال صرف چھ ڈیپارٹمنٹس پر چل رہی ہے، ہم نے یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹس کی تعداد بڑھانے کے لئے ہر سطح پر چیخ و پکار کی مگر افسوس کسی نے بھی ہماری جانب توجہ نہ دے، نہ خضدار سے منتخب عوامی نمائندوں نے اور نہ ہی حکومت و حکومتی اداروں نے۔ شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کے متعلق ڈاکٹر نواب بلوچ کا کہنا تھا کہ شہید سکندر یونیورسٹی کی منظوری و قیام میر چاکر خان یونیورسٹی سبی سے پہلے کی ہے، مگر عدم توجہی کی وجہ سے شہید سکندر یونیورسٹی میں نہ کلاسوں کا اجراء ہو سکا اور نہ ہی وائس چانسلر کی تعینات ممکن ہوسکی جبکہ دوسری جانب میر چاکر خان یونیورسٹی سبی میں وائس چانسلر تعینات ہوا، کلاسیں شروع ہو گئی، اگر یہاں سے منتخب عوامی نمائندے سیاسی شخصیات سینیٹرز و سابق نمائندے یہ سب کوشش کریں تو مارچ 2020 ء کلاسیں شروع کی جا سکتی ہیں۔

شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں کلاسوں کا اجراء انتہائی ضروری ہے، جھالاوان میڈیکل کالج خضدار کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ کا کہنا تھا کہ جھالاوان میڈیکل کالج جہاں کلاسیں تو ہو رہی ہیں مگر پروفیسروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اس کالج سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال بھی مسائل کا شکار ہیں، کالج میں لیبارٹریز نہیں ہیں، جب ایک میڈیکل کالج میں لیبارٹری نہیں ہونگے سہولیات نہیں ہونگے اس ادارے میں زیر تعلیم ڈاکٹروں کا مستقبل اور معیار کیا ہو گا؟ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر جھالاوان میڈیکل کالج کے مسائل کے حل پر توجہ نہیں دیا گیا تو اس ادارے کی ڈگری پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

شہید سکندر یونیورسٹی خضدار کی تعمیر میر چاکر خان یونیورسٹی سبی سے پہلے شروع ہوا، اب چاکر خان یونیورسٹی سبی میں کلاسیں شروع ہو چکی ہیں، مگر شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں کلاسوں کا آغاز نہیں ہو سکا، ڈگری کالج خضدار جس کا شمار بلوچستان کے قدیم ترین تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، ڈگری کالج میں پروفیسروں اور لیکچراروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیں، ہوسٹل کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے،دیہی علاقوں سے پڑھنے کے لئے خضدار شہر آنے والے طلباء کو رہائش کی سہولت میسر نہیں، گرلز ڈگری کالج کی صورتحال اس سے بھی ابتر ہے، وہاں بارہ سو سے زائد طالبات کے لئے صرف دس سے پندرہ لیکچرار ز تعینات ہیں، انٹر کالج وڈھ، انٹرکالج زہری اور انٹر کالج نال کے مسائل بھی خضدار سے مختلف نہیں جبکہ دیہی علاقوں میں پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز بھی مسائل در مسائل کا شکار ہیں، یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ عوامی نمائندوں اور حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ضلع خضدار میں تعلیمی شرح تنزولی کا شکار ہے۔

اس کے علاوہ شہید سکندر لائبرئری جو تیار تو ہو گئی، مگر اس میں کتابیں نہیں، وہ صرف ایک بلڈنگ ہی ہے، اس کے لئے فوری کتابوں کا بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور یہاں سے منتخب عوامی نمائندے خضدار کے تعلیمی اداروں کی جلد تعمیر،انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں ڈیپارٹمنٹس کی تعداد بڑھانے،بوائز و گرلز ڈگری کالجوں میں پروفیسروں و لیکچراروں کی تعیناتی سمیت تمام تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں وگرنہ خضدار میں تعلیمی صورتحال ہے وہ خطرناک حد تک گر سکتی ہے جس کے نقصانات کا ازالہ بعد میں ممکن نہیں ہو سکے گا۔

بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو ہم سب کو مشکور ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمارے ضلع کے تعلیمی مسائل کی نشاندہی کی ہے اور میں سمجھتا ہوں جتنا انہوں نے نشاندہی کی ہے ضلع کے تعلیمی مسائل اس سے بھی بڑھ کر ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا ن مسائل کے حل کے لئے سیاسی جماعتیں،سول سوسائٹی، طلباء سیاسی تنظیمیں، اور سب سے بڑھ کر عوامی نمائندے جن میں قابل احترام سردار اختر جان مینگل (ایم این اے)،قابل احترام میر یونس عزیز زہری صاحب (ایم پی اے) قابل قدر میر محمد اکبر مینگل (ایم پی اے) نواب ثناء اللہ خان زہری صاحب (ایم پی اے) سینیٹر میر طاہر بزنجو،سینیٹر میر حاصل خان بزنجو،سینیٹر مولانا فیض محمد،سینیٹر شاہ زیب خان درانی وزیر اعلیٰ بلوچستان کے اسپیشل اسسٹنٹ آغا شکیل احمد درانی یہ سب کیوں خاموش ہیں؟ حالانکہ یہ سب تعلیم دوست شخصیات ہیں ان سب کی خاموشی ان کی تعلیم دوستی پر سوالیہ نشان بنا رہی ہے، اس سوالیہ نشان کو مٹانے کے لئے ان سب کو ایک مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔