منی واجہ شہید غلام محمد بلوچ – قاضی بلوچ

495

منی واجہ شہید غلام محمد بلوچ

قاضی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ اپنے مادر وطن بلوچستان کا ایک سچے، نڈر سپوت تھے۔ بلوچ سرزمین پر دشمنوں کی پانچویں یلغار، بقول شہید چیئرمین بلوچ قدیم روایت کی طرح اپنی آزادی کےلیئے بر سر پیکار ہیں، پانچویں جنگ کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیئے ہر بلوچ پیر و کماش، نوجوانوں، ماوں، بہنو،ں بلوچ قوم کی غلامی اور اس غلامی اور جبری قبضے کے خلاف جنگ کے بارے میں آگاہی دینے کے لیئے انہوں نے دن رات، سردی، گرمی، بالائے طاق رکھ کر بلوچستان کے کونے کونے میں کبھی کارنر میٹنگ، کبھی جلسہ، کبھی مظاہرہ، کبھی ریلی کی اور ھر جگہ خود موجود ھوتے تھے۔

جب شہید چئیرمین واجہ غلام محمد بلوچ نے 2004 میں اپنے کچھ نڈر اور مادر سرزمین کے سچے سپوتوں کے ساتھ B N M کا اعلان کیا اور بلوچستان کی آزادی کے لیئے ہتھیار اٹھانے والوں کی مکمل حمایت کی آواز بلند کی تو بلوچ قوم کے نام پر کمانے والے کچھ بلوچ ڈرائینگ روم اور پیٹ کے سیاستدانوں اور دانشوروں نے بہت سارے الزامات اور طنز کا نشانہ بنایا اور یہ بات بلوچ قوم کو اچھی طرح یاد ہے، یہ مالک و حاصل گروپ کبھی شہید چئیرمین کو ایجنسیوں کا بندہ، کبھی کچھ الزام دیتے تھے۔ اور بہت سارے اسے پاگل بھی کہتے تھے لیکن جس دن شہید چیئرمین نے اپنے نظریاتی اور مخلص دوستوں کے ساتھ B N M کا اعلان کیا تو اس دن سے لے کر 3 اپریل 2009 تک شہید چیئرمین نے اپنے مادر وطن کے جبری قبضے سے لے کر بلوچ قوم کی پانچویں جنگ آزادی کو ہر بلوچ گھر، ہر گدان، ہر محلے اور ہر شہر تک لے کر گئے اور اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ جو شروع میں چند ہی تھے، بلوچ تحریک آزادی کو بلوچستان، سندھ، خلیج، یورپ، امریکہ اور جہاں جہاں بلوچ آباد تھے ان تک پہنچانے کے لیئے دن رات ایک کر دیئے اور اس میں شہید چئیرمین پیش پیش تھے۔

B N M کو شروع ہی سے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا، مرکزی رہنما حاجی نصیر، رحمت اللہ شوہاز، فضل بگٹی کو خفیہ اداروں نے اغوا کر کے غائب کر دیا اور شہید چئیرمین، شہید لالہ منیر، رحیم ایڈووکیٹ اور انور ایڈووکیٹ پر بم دھماکوں اور بغاوت کے مقدمات بنائے گئے لیکن شہید چئیرمین کا یہ کاروان رکا نہیں، جھکا نہیں اور آج شہید چئیرمین، شہید لالہ منیر، شہید رسول بخش مینگل، شہید محبوب واڈیلہ، شہید نصیر کمالان اور B N M کے پلیٹ فارم سے بلوچ تحریک آزادی کے اپنے سروں کو قربان کرکے اس جہد آزادی کو آگے لے جا رہے ہیں۔

میں نے 2005 سے چیئرمین کی شہادت تک بہت وقت اس کے ساتھ گذارا تھا، تنظیمی دوروں، میٹینگوں، جلسوں میں ہر جگہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کی لگن، اس کی تڑپ، اپنے مادر سرزمین کے لیئے بہت تھی۔ وہ اس لگن اور قومی جذبے کے ساتھ بلوچ قومی آزادی کے پروگرام کو لےکرآگے بڑھتے رھے۔ انہیں نہ مقدمات کی، نہ قید و بند اور نہ موت کی پرواہ تھی، شہید چئیرمین ایک سچے، ایماندار، پر خلوص، بلوچ قوم سے پیار کرنے والے ایک سچے بلوچ تھے۔ اس نے بلوچ قومی آزادی کے پروگرام کو نہایت ایمانداری کے ساتھ بلوچ قوم کے ہر گھر تک پہنچایا، بہت کم وقت میں اس بلوچ قوم کو متحرک کیا اور بلوچ قوم نے بھی شہید چیئرمین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کیا، بلوچ تحریک آزادی اور بلوچ سرمچاروں کی حمایت میں دنیا کے کونے کونے سے شہید چیئرمین کو فون آتے تھے، 2005 میں B N M کے مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا بلوچستان میں B N M کے کارکنوں فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا اور ان پر غیر انسانی اور وحشیانہ تشدد کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کےلئے B N M کراچی میں اپنی سرگرمیاں شروع کرے گا کیونکہ کراچی انٹرنیشنل میڈیا شہر ہے، وہاں سے ہم اپنی آواز کو انسانی حقوق کی تنظیموں اور مہذب ممالک تک پہنچا سکتے ہیں، تو اس کام کی ذمہ داری انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا، انہوں نے کراچی میں رہ کر وہاں کے بلوچوں کو بہت اچھے طریقے سے منظم اور متحرک کیا۔

واجہ یوسف نسکندی کے چھوٹے سے کمرے میں بلوچستان یکجہتی کمیٹی، بلوچ نیشنل الائنس، بلوچ اسیران رہائی کمیٹی اسکے کچھ وقت بعد بلوچ نیشنل فرنٹ B N F بنا اور ان پلیٹ فارموں سے کراچی میں بہت زبردست اور تاریخی ریلیاں، جلسے اور مظاہرے کیئے گئے اور کراچی کے بلوچوں کو منظم کرنے کےلئے شہید چئیرمین نے ھہر بلوچ محلے میں کارنر میٹنگ کیئے۔ وہاں کے بزرگوں اور نوجوانوں سے مل کر بہت اچھے اور بلوچی انداز میں بلوچ تحریک آزادی کو ان کے سامنے پیش کرتے تھے اور بلوچ کماشوں سے ان کے موڈ کے مطابق بہت جلدی ان میں گھل مل جاتے اور ان کو اپنا دوست بنالیتے تھے اور B N M کے دوستوں سے ہمیشہ کہتے تھے “” پیرین ء وتئ چادر ء لمب ء بندے “” شہید چئیرمین ہر بلوچ سے بہت شفقت پیار اور نرم لہجے میں بات کرتے تھے اور وہ خود بھی بہت سادہ اور معصوم انسان تھے، لیکن نام نہاد بلوچ قوم پرستوں پر بہت افسوس کرتے تھے جو بلوچ سرزمین اور بلوچ قوم کی اہمیت جانتے ہوئے بھی بلوچ تحریک آزادی کے مقابلے میں ریاستی آلہ کار بن کر ریاست کی زبان بول رہے ہیں، وہ یہ بات نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے دونوں دہڑوں کے قیادت کو بولتے تھے۔

شہید چئیرمین نے ایک سیاسی ماحول بنایا، کراچی میں بلوچ تحریک کے حوالے سے مختلف سیمینار اور پروگرام ھونے لگے تو بلوچ سیاسی یتیموں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور میدان میں کود پڑے یا ان کو بھیجا گیا تھا لیکن ان کو بہت جلدی یہ احساس ہوا کہ بلوچ عوام غلام محمد بلوچ کے لیئے ہیں، اس کو سننے آتے ہیں، اس سے پیار کرتے ہیں، جب ان سیاسی بونوں کو اپنے قد کا معلوم ہوا تو انہوں نے فضول پروپیگنڈہ شروع کیا لیکن ان سیاسی یتیموں کو بلوچ عوام نے بری طرح رجیکٹ کیا، کراچی کے بلوچ شہید چیئرمین کو بہت چاہتے تھے اور اس پر عقیدت کرنے لگے تھے، مجھے خود بھی شہید واجہ سے عقیدت تھا، شہید امین ہمیشہ کہتے تھے کراچی کے دوستوں کو غلام محمد بلوچ سےمحبت سے بڑھکر عقیدت ہے۔ شہید چئیرمین نے اپنے کارکنوں کو حوصلہ دیا، جب پہلی مرتبہ شہید چئیرمین کو خفیہ اداروں نے فورسز کے ہمراہ کلری سے اغواء کر کے غائب کر دیا، اس دن ڈاڈائے بلوچ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے ِخلاف ایک جلسہ ہورہا تھا لیکن اس دن بہت بارش ہونے کی وجہ سے جلسہ کینسل ہوا تو کچھ لوگوں کی نا عاقبت اندیشی اور خود نمائی کی وجہ سے ایجنسی کے اہلکار شہید چئیرمین اور شہید شیر محمد کو اٹھا کر لے گئے اور 11 مہینوں تک مختلف ٹارچر اور اذیت کے بعد جب انکو بلوچ تحریک آزادی سے نہیں ہٹاسکے تو شہید چئیرمین اور شہید شیر محمد پر بہت سارے جھوٹے کیس بناکر انکوں منظر عام پر لے آئے۔ شہید چئیرمین کے اغوا کے بعد B S O کے کچھ سینئر دوست B N M کے کاروان میں شامل ھوئے اور یہ کاروان اور مضبوط ھوا۔

منظر عام پر آنے کے بعد شہید چئیرمین کی سرگرمیاں اور تیز ھوگئے اس نے بلوچستان کے کونے کونے میں دورے شروع کیئے، خضدار، قلات، کوئٹہ، توشکی، مشکے، پنجگور، تربت، بلیدہ، مند، پسنی، گوادر اور کراچی کے مختلف بلوچ علاقوں میں B N M کے دوستوں نے بہت کامیاب جلسے کیئے۔ ہر جگہ لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ تاریخ میں ان علاقوں میں اس طرح کے کامیاب جلسے کبھی بھی نہیں ھوئے B N M کے جلسوں میں لوگ جوق در جوق شہید چئیرمین کو دیکھنے اور سننے آتے تھے۔ شہید چئیرمین بہت بہادر اور نڈر تھے، اس کے دل میں ذرا سا ڈر یا خوف نہیں ھوتا تھا، فورسز اور ان کے کاسہ لیسوں کو للکار کر بات کرتے تھے۔

واقعی وہ عظیم تھے، بلوچ مادر سرزمین کا ایک پیغمبر تھے، جو اپنے مادر سرزمین کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں آباد بلوچوں کو پہنچانے آئے تھے۔ وہ ہر مصیبت اور مشکل میں بھی بہت پرسکون رہتے تھے اور بہت سادہ سا کھانا کھاتے تھے۔ سفر میں سوائے چائے کے اور کچھ بھی نہیں لیتے تھے اور زیادہ سفر سو کر گذارتے تھے۔ شہید چئیرمین کو جب 28 مئی 2008 (یوم آسروغ ) کے دن کراچی پریس کلب کے سامنے ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرے کی قیادت کے بعد ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے( الجزیرہ T V ) کو ایٹمی دھماکوں سے ھونے والی تباہی جو مادر وطن کے دل پر کیا گیا تھا، اس کے بارے میں آگاہی دے رھے تھے تو ایجنسیوں کے لوگ شہید چئیرمین کے اردگرد موجود تھے۔ جب اس انٹرویو کے بعد شہید واجہ کو باحفاظت نکالنے کی کوشش کی تو اس نے منع کیا اور کہا میں نے کچھ دوستوں کو بولا ھے، پیراڈائیز ریسٹورنٹ میں وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جانا ہے، جب ھم صدر پہنچے تو فورسز کی بہت ساری گاڑیوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا، ان گاڑیوں سے خفیہ ادارے کے اہلکار اور پولیس والے اترے اور شہید چئیرمین کو پکڑ لیا، جب میں نے اور ایک دوست نے شہید چئیرمین کو بچانے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے ہمیں زد و کوب کیا اور شہید چئیرمین کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لےگئے، تو اس وقت بھی ہم نے یہی دیکھا وہ بہت پرسکون تھے، اس کے چہرے پر کوئی ڈر یا خوف نہیں تھا۔

B N M کے دوستوں کو شہید چئیرمین کی بہت فکر ھوتی تھی، اگر ہم اس کے لیئے کوئی احتیاطی تدبیر کرتے تو شہید چئیرمین اس کو نہیں مانتے۔ شہید بالاچ مری کی پہلی برسی کے موقع پر لیاری میں احتجاجی ریلی میں فورسز نے ریلی کے اختتام پر شہید نواب اکبر خان بگٹی چوک( ھشت چوک ) کو چاروں طرف سے ریلی میں شریک لوگوں کو گھیر لیا تھا، تو B N M کے دوستوں نے شہید چئیرمین کو وہاں سے نکالا تو اس بات پر شہید چئیرمین نے ہمیں بہت ڈانٹا اور کہا ” ہم سرفیس پر کام کر رھے ھیں ہم کب تک خود کو بچائیں گے، یہ کبھی بھی ہم کو اٹھا کر لے جا سکتے ہیں، کبھی بھی مار سکتے ہیں، ہمیں اس کے لئے تیار ہونا چاہیئے اور ہمیں تاکید کیا پھر ایسا مت کرنا۔ شہید چئیرمین نے واقعی اپنے مادر سرزمین کی پکار پر سچے اور خلوص دل سے لبیک کیا تھا، اب وہ نہ رکنے والا تھا اور نہ ہی اس کو کسی چیز کی پرواہ تھی، اس لیئے بلوچ قوم اور B N M کے دوست اپنے قائد سے عقیدت رکھتے تھے۔ بہت سارے دوست شہید چئیرمین کو خلیج یا یورپ جانے کا مشورہ دیتے تھے لیکن وہ اپنے مادر سرزمین کی مٹی کو چھوڑنے کے لیئے تیار نہیں تھا۔

حالانکہ واجہ کی خواہش تھی وہ خلیجی ممالک کا تنظیمی دورہ کرے، اندرون سندھ اور ڈیرہ غازی خان کا بھی دورہ کرے لیکن کام کی زیادتی اور پھر جان سولوکی والے واقعات نے شہید واجہ کو اتنا مصروف رکھا، وہ نہیں جا سکے جب B N M کے 7 ویں مرکزی کونسل سیشن کا فیصلہ کیا گیا تو شہید چئیرمین کونسل سیشن کو کامیاب بنانے کے لیئے B N M کے جہد کاروں کے ساتھ دن رات ایک کر دیئے اور اس کونسل سیشن میں شہید واجہ پھر سے بھاری اکثریت سے B N M کے مرکزی صدر منتخب ہوئے، مجھے فخر ہے شہید چئیرمین کے ان مخلص ساتھیوں اور دوستوں پر جو ابتدا سے ان کے ساتھ تھے اور واجہ کی شہادت کے بعد بلوچ تحریک آزادی کے پروگرام کو ان کے اصولوں پر چلتے ہوئے، آگے لے جا رہے ہیں اور اس کے لیئے وہ ہر طاقت سے آج بھی لڑنے کے لیئے تیار ہیں۔

جب شہید چئیرمین نے کراچی میں تنظیمی کام شروع کیا تو اس کے ساتھ چند لوگ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے واجہ کو وہ صلاحیت اور خوبیاں دی تھیں کہ بزرگ، نوجوان، عورتیں، بچے سب اس کے شیدائی بن گئے تھے۔ شہید چئیرمین B S O آزاد کے دوستوں کے ساتھ بہت شفقت اور پیار سے ملتے تھے اور انکو بہت عزت اور احترام دیتے تھے اور ان سے اس طرح ڈسکس کرتے تھے کہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ میں غلام محمد ہوں، کسی تنظیم کا سربراہ ہوں یا عمر میں ان سے بڑا ہوں۔ ایک دوست کی طرح ان کے ساتھ پیش آتے تھے۔ شہید چئیرمین ان سے رائے لیتے تھے بلوچ تحریک آزادی کو کسی طرح آگے لے کر جائیں، کس طرح اس کو عالمی سطح تک متعارف کروائے اور بہت سی باتوں پر ان سے مشورہ کرتے تھے، ان کی رائے لیتے تھے اور ان کی باتیں بہت اچھی طرح سنتے تھے۔ اسی طرح بلوچ وکلاء اور بلوچ ڈاکٹرز بھی شہید چئیرمین کو بہت چاھتے تھے اور اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ شہید چئیرمین کی بہت خواہش تھی اور وہ اپنی شہادت تک بلوچ ڈاکٹرز کو بلوچ وکلاء کی طرح ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔

بلوچ وکلاء سے شہید چئیرمین کی بہت نزدیکی تھی اور وہ بلوچستان کے زیادہ تر بار روم میں بلوچ وکلاء سے ملنے جاتے تھے اور بلوچ تحریک آزادی کے لیئے ان کی رائے لیتے تھے- شہید چئیرمین نے کراچی میں رہتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا، وہ بلوچ جنگ آزادی میں شہید ہونے اور پہاڑوں میں موجود سرمچاروں کے گھر والوں کی ہمیشہ دل جوئی کرتے تھے، جب انکے گھر والے کسی بیماری یا ضرورت کے وقت کراچی آتے تھے تو شہید چئیرمین انکے ضرورت کی ہر چیز کا خیال رکھتے تھے۔ جب ڈیرہ بگٹی میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور سوئی کی آبادی پر پاکستانی فورسز کی بمباری کے بعد ڈیرہ بگٹی کے لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ گزین ھوئے تو وہاں خوراک کی کمی، گندہ پانی اور زندگی کی بنیادی ضرورتیں نہ ھونے کی وجہ سے بچوں میں ہیپاٹائٹس B اور C گردے اور جگر کی بیماریاں عام ھوئیں، تو شہید چئیرمین کی کوششوں سے ایدھی سینٹر کے دوستوں کے توسط سے 10 سے 15 بچوں کو کراچی میں علاج کی، ہمارا ایک معتبر بگٹی دوست ان کو کراچی لاتا تھا (بعد میں ایجنسیوں کے دباؤ کے وجہ ایدھی نے منع کر دیا)۔

کراچی میں ان بچوں کے علاج، انکی دوائیاں، انجکشن وغیرہ سب شہید واجہ نے اپنے ذمے لیا تھا۔ وہ اس کام میں پیش پیش تھے ھر 4 3 دن کے بعد ان بچوں سے ملنے جاتے تھے اور انکے ساتھ بہت وقت گذارتے تھے اور اس کےلئے اس نے دوستوں کی ایک کمیٹی بھی بنائی تھی اور ان کی ہرضرورت پورا کرنے کی تاکید کی تھی۔ اسکے لیئے شہید چئیرمین نے باہر ملکوں میں موجود B N M کے دوستوں سے مالی کمک لیئے تھے۔ جب بلوچستان اور سندھ میں بارشوں اور سیلاب نے وہاں رہنے والے پناہ گزین بگٹیوں، جو پہلے ہی بے سروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے تھے، وہ ان طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بہت متاثر ہوئے تو شہید واجہ نے باہر ملکوں میں موجود بلوچ عوام اور یہاں بلوچ نیشنل فرنٹ B N F کے دوستوں نے بلوچستان اور کراچی میں متاثرین امدادی کیمپ لگائے۔ بلوچ قوم نے توقع سے بڑھ کر اپنے بھائیوں کی مدد کی، شہید واجہ خود انکی ضرورتیں پوچھتے اور ان کی ضرورتوں کے مطابق ان کے سامان خود خریدے، جس میں دوائیاں، خیمے، کمبل، جنریٹر، گیس والے چولہے اور ضروریات زندگی کی ہر چیز، پھر مجھے یہ ٹاسک دیا ان چیزوں کو متاثرین تک پہنچاوں، پھر میں نے اور اس بگٹی دوست نے یہ سامان سندھ کے مختلف علاقوں میں متاثرین تک پہنچائے اور بلوچستان سے ایک ڈاکٹروں کی ٹیم دوائیوں اور سامان کے ساتھ ڈاکٹر منان کی سربراہی میں ان علاقوں میں بھیج دیا، جہاں بگٹی متاثرین تھے-

شہید چئیرمین کے شہادت کے بعد شہید واجہ کے چہلم میں میں نے اس بگٹی دوست کو شہید واجہ کے قبر پر دیکھا، وہ دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ میں نے اس کو تسلی دینے کے لیئے اس کے کاندھے پر ھاتھ رکھا تو میرے گلے لگ کر کہہ رہا تھا نواب کے بعد ہم پھر یتیم ہوگئے۔ جب مجھے دوستوں نے شہید چئیرمین کی سیاسی زندگی جو اس نے B N M میں 2004 سے 2009 تک جو تم نے اس کے ساتھ وقت گذارا وہ لکھنے کا کہا تو میں نے ان سے کہا سب سے پہلے میں یہ کہونگا شہید واجہ نے سیاست نہیں کی، اس نے اپنا فرض اور مادر وطن کا قرض ادا کیا۔ اسکے بارے میں میں کیا کوئی بھی لکھ نہیں سکتا، وہ بلوچ قوم کے راھشون تھے، مادر سرزمین کے پیغمبر تھے، جس نے اپنے مادر وطن کی پکار کو اس کے زخموں سے چور پیغام کو اس کے بیٹوں تک پہنچایا۔ کبھی آللہ اکبر ھوٹل، کبھی ماما ھوٹل، ہر جگہ ہر وقت اس کا ایک ہی سوال ہم کس طرح بلوچ آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور دنیا کے سامنے اسکو کس طرح متعارف کروائیں، وہ ایک شفیق مہربان اور پیار کرنے والا قائد اور اپنے مادر سرزمین کا ہونہار بیٹا تھا۔

شہید واجہ بلوچی کلاسیکی شاعری بہت شوق سے سنتے تھے، ملا کمالان کی بہت ساری شاعری اس نے اپنے موبائل میں SAVE کیئے تھے۔ بالاچ گورگیج، حمل جیئند اور دادشاہ کی شاعری کو بہت شوق سے سنتا تھا اور ہمیں بھی مطلب سمجھاتا تھا۔ شہید واجہ کے موبائل میں زیادہ تر کلاسکی شاعری اور غلام حسین شوہاز کے شاعریوں کے گانے ھوتے تھے اور جب کبھی خوشگوار موڈ میں ھوتے، تو خود بھی گانا گنگناتے تھے، سگریٹ کا پیکٹ ہاتھ میں لے کر اسے بجا کر بہت خوبصورت انداز میں گنگناتے تھے، کبھی موبائل سے ہمیں ملا کمالان کی شاعری سناتے تھے پھر STOP کر کے ہمیں مطلب سمجھاتے تھے اور اس کی تشریح بھی کرتے تھے۔ کبھی کبھار شہید واجہ، شہید امین کو بھی بلاتے تھے وہ دونوں پوری رات شاعری سنتے اس پر ڈسکس کرتے، چائے پیتے اور میں انکے لیئے چائے بناتا تھا۔ میں جب یہ لکھ رہا ھوں اس کمرے میں بیٹھ کر جہاں شہید واجہ اکثر ھوتے تھے اور اسی کمرے سے 2 اپریل 2009 کو تربت گئے، 3 اپریل کو اسکی پیشی تھی، جب شہید واجہ یہاں ھوتے تھے وہ صبح جلدی نیند سے اٹھتے تھے، میں سویا ھوتا تھا وہ میری بیٹی یا بھانجیوں کو آواز دے کر کہتے تھے ” او فاطمہ! او زینب! سرد ء آ٘پ ء بیارے چائے بیار ء “” اور میرے گھر والے آج بھی یہ کہتے ہیں نجانے کب اس کمرے سے واجہ آواز دے “” او فاطمہ! او زینب! سرد ء آپ ء بیارے چائے بیار ء “” کی آواز دے ہم سب ترس گئے ہیں اس آواز کے لیئے ہم روتے ہیں، اس آواز کو سننے کے لیئے۔

شہید چئیرمین بہت پیارے انسان تھے، اس کو سب چاہتے تھے، پیار کرتے تھے۔ مجھے اسکی صبر، سرزمین سے لگن، حوصلہ اور جرآت دیکھ کر اس سے عقیدت ھو گیا تھا۔ اب شہید چئیرمین کو یاد رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ B N M کے دوست اور بلوچ جہد کار اسکے تحریک آزادی کے مشن کو آگے بڑھانے اپنے مادر سرزمین کے دکھ اور زخموں سے چور بدن اور بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں اور اپنے ماوں بہنوں اور بچوں کو خون جما دینے والی سردی، گرمی، بارش میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیئے بھوک ہڑتالی کیمپوں میں بیٹھا دیکھ کر ہم عہد کریں ہم اپنی زندگیوں اور اپنے کو بلوچ سرزمین کی آزادی کے لیئے وقف کریں اور بقول شہید چئیرمین “” مرے پہ ونئ ننگ ء بے مر مرے پہ بلوچی نام ء بے مر “” تو ہم بھی اپنے قائد شہید غلام محمد بلوچ کے نقش قدم پر بلوچ قومی آزادی کے لیئے کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے بقول شہید چئیرمین “” مرگ وا الم ء است ء بلے وتئ واسطہ ھما مرگ ء بلوٹ کہ دا بلوچ راج است ء گڑا تو ھم زندگ ء “” تو بلوچ قومی تحریک کے ساتھیوں آو ھم بھی قسم کھاتے ہیں اپنے مادر سرزمین بلوچ شہداء اور اسیران کی اور یہ عہد کرتے ہیں ھم بھی اپنی زندگیوں کو مادر بلوچستان پر قربان کریں * بلوچ جہد آذادی سوبین بات۔

(یہ مضمون میں نے دوستوں کے اصرار پر 2010 میں لکھا تھا، ابھی شہدائے مرگاپ کے 10 ویں برسی پر پھر بلوچ قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں)

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔