بلوچستان کے لاوارث، وارثوں – حوران بلوچ

310

بلوچستان کے لاوارث، وارثوں

حوران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

سالوں پہلے بچپن میں یہ بات بہت سنی اور کہی جاتی تھی کہ جب کسی سے لڑائی جھگڑا ہوتا، کئی بار تو یہ میں خود بھی بولتی تھی کہ میں بے وارث نہیں، میرے بھی وارث ہیں، کئی بار لفظ وارث کی وجہ سے جھگڑا مار پٹائی کے نوبت تک نہیں پہنچتی تھی۔ یہ بھی سنی اور بولی جاتی تھی کہ شکر ہے میں مسلمان ہوں، جب فوتگی ہوتی تو مسلمان کہہ کر فوتگی والے گھر میں کجھور کی گٹھلیوں پر وظیفے پڑھ کر فرض بھی ادا کر لیتی اور باقیوں کو بھی یہ کرتے دیکھتی تھی۔ بعض جگہوں پر یہ کہہ کر دوسرے کو تکلیف نہیں دیتی کہ انسان ہوں یہ غلط ہے اور بعض جگہوں پر مسلمانی کی بات آتی کہ گناہ ملے گا، حساب ہوگا اور کہیں تو وارث یاد آتے تو اس ڈر سے بھی مار پٹائی سے دور رہتی تھی۔

شاید وہ بچپن تھا، جب وارث، مسلمان اور انسان بیچ میں آجاتے، تب کوئی جھوٹ بولتا تو ہمیں مسجد چلنے کا کہا جاتا کہ وہاں جاکر بولو سچ کیا ہے، تو ڈر سے جلدی جلدی سچ بتا دیتے تھے کہ گناہ ملے گی، جب بھی کچھ غلط کرتے تو مسجد کی بات کہہ کر ہم سے سچ بلوایا جاتا تھا اور اب یہ وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہنے والے جھوٹے، جو انسان ہی نہیں، وہ خدا سے ذرا بھی نہیں ڈرتے ہیں، وہ لوگ جو خود کو بلوچستان کا وارث کہہ کر بلوچستان کے ہر چیز کو لوٹنے میں، بلوچ سرزمین کے اصل وارثوں کے قتل میں برابر ملوث ہیں، جو خود بلوچ نسل کشی کا حصہ ہیں اور اب بلوچ سرزمین پر رہنے والے، بلوچ دھرتی کے وارث، بے وارث کہلائے جارہے ہیں۔

دنیا کی تمام جگہوں پہ رہنے والے مسلمانوں کے طرح بلوچستان میں بلوچ مسلمان رہتے ہیں اور مسلمانی سے پہلے بلوچ انسان بستے ہیں۔ پھر ان انسانوں، مسلمانوں اور بلوچستان کے وارثوں کے ساتھ جو ظلم و جبر ہورہا ہے، اس پر آخر کیوں بہت سے انسان، مسلمان اور بلوچ جو خود کو اسی سرزمین بلوچستان کا وارث کہتے نہیں تھکتے ہیں، وہ کیوں خاموش تماشائی بنے ہیں؟

جب بلوچ سرزمین کے وارثوں کو ان کے گھر، بچے، خاندان سے دور کرکے سالوں اذیتیں دے کر، پھر ان کی لاشیں ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں، تشدد کی انتہاء ہے کہ ان لاشوں کو ان کے گھر کے اپنے وارث ہی پہچان نہیں پاتے، تب ایدھی والے لاوارث سمجھ کر انہیں دفنا دیتے ہیں۔ اس حد تک تشدد کے لفظ انسانیت خود دم توڑ جائے، کائنات میں بسنے والے دیگر مخلوقات بھی شاید پناہ مانگتے حیرانگی میں دیکھتے رہ جائیں۔

بلوچستان سے اجتماعی قبریں ملنا نئی بات نہیں ہے، توتک واقعے کے بعد پنجگور میں اجتماعی قبروں نے جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین کے دلوں کو دہلا دیا، وہیں پر لاوارث قرار دیکر مسخ شدہ لاشوں کو دفنانا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ شاید ہی کہیں دنیا میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہوں لیکن میں نے کہیں پر سنا یا پڑھا نہیں ہے کہ کسی جگہ پر آوازوں کو اس طرح چپ کرایا گیا ہو۔

بلوچستان سے لاوارث لاشوں کے ملنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن انہیں ڈرامائی طور پر چھپایا گیا ہے۔ مسکان قلات خاران میں نومبر 2018 کو ایک لاش کو بغیر شناخت کی کوشش کے چند گھنٹوں میں دفنانے کا واقعہ ہو یا پھر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے مضافات سے بی ایم سی میں لائے گئے متعدد لاشوں کو لاوارث قرار دیکر میڈیا اور عوام سے چھپاکر دفنایا جانا ہو۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تیرہ میل میں دفنائے گئی لاشیں یا اس سے قبل لاوارث قرار دیئے گئے متعدد افراد کی لاشیں لاپتہ بلوچ افراد کی ہیں اور وہ کسی بھی صورت لاوارث نہیں تھے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی لاوارث پیدا نہیں ہوتا ہے جبکہ حکومتی سطح پر جلد بازی میں ان لاشوں کو بغیر تحقیقات کے دفنانا کئی سوالات جنم دیتی ہے جو اب حل طلب ہیں۔

اس سے قبل تشدد زدہ لاشوں کی جیبوں سے پرچیاں برآمد ہوتی تھیں، جن پر ان کا نام اور پتہ لکھا ہوتا تھا، جس سے ان کی شناخت ہوپاتی تھی اور بہت سی ایسی پرچیاں بھی برآمد ہوئیں، جن پر عید کا تحفہ کندہ ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے لیکن اب ظالم چاہتا ہے کہ مظلوم کا درد اور انتظام ختم ہی نہ ہو۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ یہاں پر حقوق اور انسانیت کے نام پر سیمینار منعقد کرانے والے اور ایوارڈ لینے والے افراد بہت ہیں، جو انسانیت کے نام کو اپنے مفادات کیلئے ہر وقت استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن جب بات بلوچ اور بلوچستان کی آتی ہے تو ان کے زبان پر تالے لگ جاتے ہیں، پھر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہاں انسان بستے ہیں اور انسانیت ابھی تک زندہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔