سماجی رشتوں کو نبھانے کے علاوہ بلوچ خواتین انقلابی عمل کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ماما قدیر بلوچ

312

بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3381 دن مکل

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم کردہ بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3381 دن ہوگئے۔ بی ایچ آ ر او کے چیئر پرسن بی بی گل، وائس چیئر پرسن طیبہ بلوچ اور حوران بلوچ نے کیمپ کا دورہ کر کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

ماما قدیر نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او آزاد کے انفارمیشن سیکریٹری شبیربلوچ کی اہلیہ اور ہمشیرہ سیما بلوچ بھی اپنے بھائی کے بازیابی کے لئے کل سے کیمپ میں بیٹھی ہیں۔

سیمابلوچ نے کہا میری نوجوان بھائی کی گمشدگی نے پورے خاندان کو ناقابل بیان اذیت سے دوچار کیا ہے ہمارے درد سے وہی لوگ آشنا ہیں جو اس مرحلے سے گزرہی ہیں، پاکستان میں انسانیت نام کی کوئی شئے ہوتی تو آج لاکھوں لوگ ہمارے شانہ بشانہ ہوتے ۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کے ادارے بھائی کی بازیابی میں کردار ادا کریں، ہمشیرہ لاپتہ شبیر بلوچ

سیما بلوچ نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسے سماج انسانی سماج کہلانے کے حقدار ہیں جہاں انسانیت کی کوئی قدر نہ ہو، کیا ہم انسان نہیں ہیں، آج متعدد لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میرے بھائی کو ہمارے نظروں کے سامنے فورسز نے آپریشن کے دوران اٹھا لیا لیکن پاکستانی عدلیہ، سول سوسائٹی، سیاستدان کلمہ حق کہنے سے کتراتے ہیں، ان رویوں نے آج انسانیت کو شرمسار کردیا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دنیا کی تاریخ پر ہم اگر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عورت نے معاشرے میں ایک مثالی کردار ادا کیا ہے، ماں، بہن کی شکل سمیت مختلف رشتوں کی شکل میں اہم کردار نبھانے کے باوجود عورت نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ آج بلوچ عورت اپنے اندر غلامی کی سوچ کی نفی کرتے ہوئے اپنے اندر ایک انقلابی سوچ پیدا کرچکی ہے ۔ بلوچ عورت انسانی سوچ، انسانیت سے پیار کا احساس، قوم کی محکومی اپنے قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم کو محسوس کرتے ہوئے اپنے شعور میں اضافہ کرنے کی تگ و دو اور جدوجہد میں ہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ریاستی مظالم انسانی حقوق کی بدترین پامالی سے لیکر گمشدگیوں و مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں بلوچ نسل کشی کی کونسی حد رہ گئی ہے جس تک پہنچا نہ گیا ہو یا اسے پار نہ کیا گیا ہو، پاکستانی فورسز، خفیہ اداروں اور ان کی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں شہدا اور جبری طور پر لاپتہ بلوچ فرزندوں سے سیاسی جماعتوں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز و انسانی کے حقوق سرگرم تنظیموں اور عالمی رائے عامہ کو بلوچ قومی حمایت حاصل ہے۔ بلوچستان میں اس وقت پاکستانی جبری علمداری دوستون پر کھڑی ہے ایک ستون قومی تحریک و انسانی شرف کی شعور و قومی غیرت سے محروم، اقتدار کے لالچی علمداری والے افراد نام نہاد سیاسی جماعتیں کٹھ پتلی اسمبلی اور کابینہ اور دوسرا ستون چور ڈاکو کو قاتل منشیات پروش سماج و دشمن عناصر اور قومی غداروں پر مشتمل ہے۔