خان میر محراب خان – انقلابی ورثہ سلسلہ

2384

خان میر محراب خان
(1817-1839)

آزادی۔۔۔ہر انسان کی انفرادی اور بحیثیت ایک معاشرتی اجتماع یعنی ایک قوم کے اس کی اجتماعی خوشی اور عزیز ترین نعمت ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہونا کسی فرد کے لئے سب سے بڑی خوشی ہوسکتی ہے اور ایک فرد ایسی مرضی کا مالک اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ بحیثیت ایک قوم کے اپنی قسمت و مرضی کا مالک اور خودمختار نہ ہو۔ صرف آزاد قوم کے افراد ہی اپنی مرضی کے خود ہی مالک ہوتے ہیں۔

آزادی کے حصول‘ تحفظ و بقا کے لیے قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مرحلے بھی آتے ہیں۔ جب اس عزیز نعمت کے لیے اپنے وجود یا عدم وجود کے احساس تک مٹانا پڑتا ہے۔ اس وقت وجود محض آزادی کا نام بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر اس قوم کی رہنمائی کرنے والے بھی اسی منزل کو مراد سمجھ لیں اور اسی کو حیات اور مقصود حیات قرار دے ڈالیں جو اس کی قوم نے اپنے لئے معین کی ہو تو اس قوم کی تاریخ میں ایسے افراد دائمی اور لازوال نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور خود ایک تاریخ بن جاتے ہیں۔
خان میر محراب خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچوں کی تاریخ کا ایک ایسا ہی کردار ہے۔ اگر برطانوی نوآبادیاتی سامراجی دور کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کے حوالے سے آزادی کے لئے لڑی جانے والے جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو خان محراب خان جنوب مغربی ایشیا کے ایک عظیم وطن پرست اور آزادی پسند اور وطن اور اس کی آزادی کی حرمت کے پاسبان اور جان نثار نظر آتے ہیں۔

اس دور میں جبکہ برصغیر میں برطانوی استعمار ایست انڈیا کمپنی کی صورت میں اپنی گرفت مکمل کرچکا تھا۔ اس کا رُخ شمال مغرب کی جانب ہوگیا تھاتاکہ افغانستان پر قابض ہوجانے کے بعد مزید آگے بڑھنے کا اہتمام ہوسکے تو بلوچستان کے خان محراب خان ہی اس منصوبے کی راہ میں ایک ایسی رکاوٹ بن گئے کہ اس میں ان کی اپنی جان تو گئی لیکن برطانوی حکومت کے منصوبے بہرحال تشنہ تکمیل رہ گئے۔

خان محراب خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچی ریاست کے قومی حکمران تھے جس کے ہمسایہ افغان ریاست کے ساتھ تاریخی برادرانہ تعلقات تھے۔ اسی دوران افغانستان کے شاہ شجاع کو اندرون ملک حکمرانی چپقلش میں شکست کھانے کے بعد اپنا ملک چھوڑنا پڑا اور وہ وہاں سے بھاگ کرخان محراب خان کے پاس قلات آگیا۔ خان محراب خان اگر چاہتا تو قلات اور کابل کے مابین طے شدہ معاہدوں کے بموجب اسے افغانستان کے نئے حکمران کے حوالے کرسکتا تھا لیکن اس نے روایتی بلوچی باہوٹی کا احترام کرتے ہوئے(جس کا مظاہرہ دوسوسال قبل اس کا ایک پیشروبلوچ ملک خطی نے ہندوستان کے شکست خوردہ‘ معزول اور بے سروسامان شہنشاہ‘ ہمایوں کو اپنی پناہ میں آجانے کے بعد اس کو بحفاظت ایران پہنچانے کی صورت میں کیا تھا) امیر شجاع کو بحفاظت اپنی سرحدوں سے باہر پہنچادیا۔ جس نے بعد ازاں پنجاب میں مہاراجہ زنجیت سنگھ کی سکھ حکومت کے توسط سے ہندوستان کے انگریزی حکومت کی حمایت حاصل کی اور ان کی قوت کے بل بوتے پر دوبارہ افغانستان کا تخت حاصل کرنے کا تہہ کرلیا۔ یہ تخت گویا اسے افغانستان کی آزادی کا سودا کردینے کے عوض حاصل ہورہا تھا۔ چونکہ انگریزیتلوار کے سائے میں کابل پر حکمرانی کرنا گویا اپنے ملک کی آزادی کی قیمت پر اپنے لئے حکمرانی حاصل کرنا تھا جسے بہر حال شاہ شجاع نے بخوشی قبول کرلیا۔

یہ معاملہ طے ہوجانے کے بعد شاہ شجاع نے انگریزی افواج کی معیت میں افغانستان کا رُخ کیا۔ افغانستان میں داخلے کے لئے قندہار کے راستے کو منتخب کیا گیا جہاں جانے کے لئے بلوچستان سے درئے ءِ بولان کے راستے سفر اختیار کرنا پڑتا تھالیکن اس سے پہلے سندھ کی ریاست واقع تھی جس پر اس وقت تک وہ ہندوستان کی برطانوی سلطنت کا حصہ نہیں بنی تھی۔ لیکن سندھ کے ان حکمرانوں نے اپنی حاکمیت اور باگ دوڑ عملاً انگریز حاکموں کے ہاتھ میں دے رکھی تھی اس لیے انگریزوں کو ان کی حمایت و اجازت حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ وہاں سے گزر کر انگریزی افواج بلوچستان سے گزرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہوسکتی تھیں جس کے لئے انہیں بلوچستان کے حاکم‘ خان محراب خان کی اجازت و اعانت کی ضرورت تھی۔

اس سلسلے کی واقعات کے تذکرے سے قبل بلوچستان کے اس وقت کے حالات اور خان کے دربار کی کیفیت کا ایک جائزہ ضروری ہے تاکہ اس دور کی سیاسی صورتحال کی روشنی میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی صحیح تصویر دیکھی جاسکے۔
خان محراب خان کے دربار میں اس کے چند درباریوں کا مکمل غلبہ تھا۔ ان میں سے داؤد محمد غلزئی‘ آخوند فتح محمد‘ اس کا بیٹا آخوند محمد صدیق‘ ملا محمد حسن اور سید شریف محمد خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ انہیں بلوچ سرزمین اور بلوچی حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور وابستگی نہیں تھی۔

انہیں محض اپنی وزارت اور ذاتی مفادات سے غرض تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مذکورہ درباری حصول مال وزارت کی خاطر ایک دوسرے سے بھی پرخاش رکھتے تھے اور آپس میں مستقل چپقلش کی سی کیفیت میں رہتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے حریف کا خاتمہ کرکے خود اس کی جگہ قلات کا وزیر بننے کا خواہشمند تھا۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرانے تک سے گریز نہیں کیا۔ آخوند فتح محمد اور داؤد محمد غلزئی اسی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اسی چپقلش اور ذاتی مفادات کے لالچ نے انہیں انگریزی حکومت کا ایجنٹ بن جانے پر مائل کیا۔ مذکورہ درباریوں کی باہمی چپقلش محض ان تک محدود نہ رہی۔ اس کی لپیٹ میں پیشتر دیگر بلوچ سردار آگئے چونکہ انہوں نے مختلف قبائلی سرداروں کے ساتھ اپنی بیٹیوں کی شادی کرکے ان سے قرابت داری پیداکرلی تھی۔ خان کے سرداران ساراوان اور سردار جھالاوان دونوں آخوند فتح محمد کے داماد تھے۔ اس طرح متذکرہ درباریوں کی چپقلش اور سازشیں بالواسطہ طور پر بلوچ قبائلی معاشرے پر اثر انداز ہوکر ان کے اندر بھی نفاق و گروہ بندی پیدا کردیتی تھی۔ جس کے باعث بلوچ کفیڈریسی میں رخنے پڑتا شروع ہوگئے۔

ان حالات میں جب خان محراب خان نے بلوچ سرداروں کی سرکشی کو ختم کرکے مرکزی قوت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو سردار حضرات خود مرکز کے مٹانے کے درپے ہوگئے اور اس ضمن میں انہوں نے کسی قومی ننگ و ناموس کا لحاظ رکھے بغیر غیر ملکی قوتوں کا آلہ کار بن کر اپنی قوتغیرت‘ آن اور وطن کی آزادی و ناموس کا سودا کر ڈالا۔

یہی تھے وہ حالات جب انگریزی افواج کے کماندار جنرل میکناٹن نے 1830میں میجر لیچ کو اپنے نمائندے کی حیثیت میں
قلات بھیجا تاکہ خان محراب خان کے ساتھ انگریزی افواج کے بلوچستان کے راستے بہ حفاظت گزرنے کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوسکے۔

خان محراب خان اپنی سرزمین میں انگریزی افواج کی آمد اور اس راستے ہمسایہ مسلم افغانستان پر حملے کو برداشت نہیں کرسکتا تھا لیکن وہ اپنے ملک داخلی کیفیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس لئے اس صورت حال اور وقت کے پیش نظر وہ انگریزی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی باقاعدہ محاذ آرائی یا مخالفت سے باز رہے۔ البتہ انہوں نے انگریزی افواج کی کسی قسم کی معاونت نہیں کی اس دوران انگریزی افواج شاہ شجاع کو اپنے ساتھ لئے کچھی اور درہ ءِ بولان سے ہوتے ہوئے شال کوٹ (کوئٹہ) پہنچ گئیں جو افغانستان کی سرحدوں کے قریب خان کی ایک سرحدی چوکی تھی۔

چند سرداروں کے باغی اور دشمن ہوجانے کے باوجود خان کو عمومی طورپر تمام بلوچوں کی حمایت حاصل تھی۔ چند ایسے بلوچ سرکردہ لوگ موجود تھے جو انگریزی افواج اپنی سرزمین پر سے گزرنے کو اپنے وطن کی حرمت و آزادی کے خلاف سمجھتے تھے۔ انہوں نے انگریزی افواج کی پیش قدمی میں رکاوٹیں ڈالیں اور درہ ءِ بولان سے گزرنے اور موجودگی کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور خان کے اسی رویے کو محسوس کرتے ہوئے مختلف بلوچ قبائلی لشکر ان کی افواج کو ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔

انگریزوں نے ان حالات سے پریشان ہوکر خان محراب خان سے وفادار رہنے کا قول و قرار حاصل کرنے کی خاطر اسے قلات سے کوئٹہ پہنچ کر شاہ شجاع کے سامنے حاضری دے کر اس کا وفادار و فرمانبردار رہنے کا حلف و اعلان کرنے کی ہدایت کی ۔ خان محراب خان جو اپنے آپ کو ایک آزاد ملک و قوم کا آزاد خودمختار حکمران خیال کرتا تھا۔ اس کے لیے یہ تصور بھی اذیت ناک تھا کہ وہ کسی دوسرے غیر ملکی حاکم کے سامنے اپنی ماتحتی کا اظہار و اعلان کرکے اپنی آزادی سے دست بردار ہوجائے لہٰذا اس نے حکومت کے اس توہین آمیز مطالبے کو یکسر رد کردیا۔ اس کا اظہار اس دور کے ایک بلوچ شاعر محمد حسن خان نے اپنے اشعار میں اس طرح کیا ہے۔ترجمہ:

جب وہ شال کوٹ (کوئٹہ) پہنچ کر قیام پذیر ہوئے تو انہوں نے خان کو خط بھیجا کہ تم ابھی اور اسی وقت اُٹھ کر بادشاہ کے حضور حاضر ہوجاؤ۔
شیرنر (خان) نے اس کے جواب میں یوں کہا:
اے برنس (انگریز نمائندہ) تم ہوش کے ناخن لو
اور مجھ پر یوں رعب مت جماؤ
جس دن سے میں تخت پر
اپنے ہی بخت و ہمت سے بٹھا ہوں
اللہ کا رسول ﷺ گواہ ہے
میری دشمنوں کے ساتھ لڑائی ہے۔

دریں اثنا شاہ شجاع انگریزی لشکر کے ساتھ عازم افغانستان ہوا اور قندھار فتح کرنے کے بعد وہ کابل کی جانب روانہ ہوا۔ کابل بغیر کسی لڑائی کے ان کے ہاتھ آگیا اور امیر دوست محمد خان لڑے بغیر وہاں سے فرار ہوگیا اور اس نے بعد میں خود کو انگریزوں کے حوالے کردیا جنہوں نے اسے جلاوطن کرکے کلکتہ میں نظر بند کردیا۔ افغانستان پر مسلط ہوجانے کے بعد انگریزی فوج کا ایک حصہ قندھار سے واپس کوئٹہ پہنچا۔ اسی دوران انگریزی افواج کو گورنر جنرل ہند لارڑاک لنپڈ کی جانب سے قلات پر حملہ کرنے اور خان محراب خان کو اس کی آزادانہ روش پر سزادینے کے احکامات جاری کئے جاچکے تھے۔

انگریزی فوج کا ایک دستہ بریگیڈیئر ولشائر کے زیرکمان قلات کی جانب روانہ ہوا۔ ساتھ ہی اس نے خان محراب خان کو اپنی شرائط کے تحت حکومت برطانیہ و افغانستان کا مطیع و فرمانبردار بننے کی تنبیہ کی۔ وہ دربار قلات کی اندرونی صورت حال سے بخوبی آگاہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ خان کے سامنے اس کی ہر شرط پر انگریزوں کی اطاعت گزاری قبول کرنے کے سواکوئی راستہ نہیں ہے لیکن جب خان محراب خان کو انگریز حملے کی اطلاع اور دھمکی ملی تو اس نے کسی توقف کے بغیر انگریز قوت کا میدان جنگ میں جواب دینے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔ لالہ ہتورام اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ کے صفحہ 320پر لکھتا ہے:

’’ہر چند کوشش ہوئی کہ میر محراب خان سلام کرے یا قلات چھوڑ دے مگر محراب خان مقدمہ کرنے پر اور اپنی جان دینے پر مستعد رہا‘‘۔

خان کے ایک درباری آخوند محمد صدیق نے فارسی زبان میں خوانین قلات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے تحریر کیا کہ انہوں نے خان کو مشورہ دیا کہ انگریزی قوت و سپاہ کا مقابلہ ہم نہیں کرسکیں گے لہٰذا مصلحت اسی میں ہے کہ وقتی طور پر پسپائی اختیار کی جائے اس پر محراب خان نے یہ جواب دیا:

’’جانتا ہوں کہ انگریز لندن اور پورے ہندوستان کے بادشاہ ہیں اب انہوں نے کابل و قندھار کو بھی تسخیر کرلیا ہے۔ ان کو جو قوت و غلبہ حاصل ہے میں اس سے آگاہ ہوں اور ان کا مقابلہ سخت مشکل ہے لیکن میں اس ملک کو چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ میرے آباؤ اجداد نے اس سرزمین کو اپنالہودے کر حاصل کیا ہے۔ اللہ گواہ ہے کہ بغیر کسی ریاکے خالصتاً اللہ کے لئے اپنا سر دے رہاہوں۔ آئندہ جو ہو‘ سوہو خُدا کا شکر ہے کہ اپنی زندگی میں کسی غیر کے سامنے اپنا سر نہیں جُھکایا‘ اپنی قوت پر حکمران رہا۔ کسی کی اطاعت نہیں کی۔ آج اپنا سرکیوں قربان نہ کردوں، اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ وہ ضروراس گناہ گار کو جام شہادت نصیب کرے گا‘‘۔

یہ عبارت لالہ ہتورام نے اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ میں آخوند محمد صدیق کی فارسی کتاب کے متن میں صفحہ 258-259 پر اور خان احمد یارخان نے اپنی کتاب ’’قوم بلوچ و خوانین بلوچ‘‘ کے صفحہ 55پر تحریر کی ہے۔ خان محراب خان نے انگریزی حملے کی اطلاع پاکراپنے تمام سرداروں کو اسلامی جہاد‘ قومی غیرت اور بلوچی ننگ کا واسطہ دے کر اپنی سرزمین اور اس کی آزادی و ان کے تحفظ کی خاطر پکارا۔ مگر وہ تو ان کے تحفظ کی بجائے ان کو پائمال کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ میر گل خان نصیر اپنی کتاب ’’تاریخ بلوچستان‘‘ کے صفحہ 129پر اس المیے کا اظہار یوں کرتا ہے:

’’انگریزی فوج بلوچوں کے ننگ و ناموس پر ڈاکہ ڈالنے میجر ولشائر کی قیادت میں قلات کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ساراوان کے سرداروں نے مستونگ میں میجر ولشائر کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور اس کی امداد کی۔ راشن اور بھوسہ بہم پہنچانے کے لئے‘ اپنے آدمی‘ اونٹ اور گھوڑے ساتھ کردیئے اور خود عورتوں کی طرح چادر اوڑھ کر اور گھروں میں بیٹھ کر بلوچی ننگ و ناموس پر اغیار کی بد مستیوں اور درازدستیوں کا تماشا دیکھتے رہے‘‘۔

انگریزی افواج میجر ولشائر کی کمان میں تیرہ نومبر 1839کو قلات کے قریب پہنچ گئیں۔ اس وقت خان کے پاس ایک محدود سالشکر موجود تھا۔ جو انگریزی حملے کی اطلاع پاکر قلات اور اس کے گردونواح سے اپنی سرزمین کو غیر ملکی تسلط سے محفوظ رکھنے کی خاطر قلات میں جمع ہوچکا تھا۔ یہ سب مختلف علاقوں کے عام بلوچ سرفروش تھے۔

لڑائی علی الصبح شروع ہوئی جو شام تک جاری رہی۔ اس تمام عرصے ہتھیار اور حوصلوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ بلوچی لشکر نے اس وقت تک انگریز لشکر کو قلعے سے باہر روکے رکھا جب تک کہ انگریزی توپوں کی گولہ باری کے سبب قلعے کا ایک دروازہ گرگیا۔ انگریزی قبضہ مکمل نہیں ہوا۔ ایک ایسی ہی مزاحمت کا سامنا ان کو قلعے کے اندر بھی کرنا پڑا۔ انگریزی لشکر قلعہ کے اندر پہنچ کر فوری طور پر خان کے محل (میری) پر قابض ہوجانا چاہتا تھا۔ تاکہ مرکز مزاحمت ہی ختم ہوجائے اور خان کو گرفتار کیا جاسکے لیکن جب انگریزی لشکر میری کے قریب پہنچا تو بلوچی ناموس و وقارکا محافظ خان محراب خان۔۔۔۔۔۔بہ نفس نفیس ان کے ساتھ نبردآزما ہونے کے لیے موجود تھا یہاں ایک شدید جھڑپ ہوئی جس میں خان محراب خان نے اپنے کئی جان نثاروں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ جس کے ساتھ ہی اس پورے خطے میں انگریزی توسیع پسندی کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی اس لڑائی کا ذکر خود انگریز کماندار میجر ولشائر نے تسخیر قلات کے بعد گورنر جنرل کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں اس طرح کیا:
دشمن قدم قدم پر نہایت بہادری‘ استقامت اور جوش کے ساتھ لڑتا رہا۔ دشمن نے قلعہ کے اندرونی حصہ تک اسی طرح مقابلہ کیا اور انچ انچ زمین کے لئے لڑتا رہا‘‘۔

تھوڑے وقفے کے بعد فوج کے اس حصے نے جس نے شہر پر قبضہ حاصل کیا تھا میری میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازے پر رسائی حاصل کی۔ جہاں میر محراب خان نے اپنے آدمیوں کی سرکردگی کرتے ہوئے ایک دیرانہ مدافعت پیش کی۔ خان محراب خان اپنے کئی معتبرین کے ساتھ تلوار ہاتھ میں لئے مارا گیا۔

شہر کے کئی ملحقہ مکانوں سے ہم پر گولیوں کی بدستور جاری رہی یہاں تک کہ جان بخشی کا عام وعدہ دے کر بھی ظہر سے قبل ہم ان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہ کرسکے۔ قلعہ کی حفاظت غزنی کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط طریقے پر کی گئی تھی۔میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری طرفسے مرے ہوئے اور زخمیوں کی تعداد زیادہ ہے‘‘۔

قلات کا سقوط نہ صرف بلوچستان کی آزاد حاکمیت کا اختتام تھا بلکہ اس پورے خطے میں انگریزی استعمار کے خلاف مضبوط مزاحمت کا ایک مرکز ختم ہوگیا۔ بعد میں اگرچہ خان محراب خان کے نوجوان فرزند میر نصیرخان دوئم نے بلوچ عسکری قوت کو منظم و متحرک کرکے انگریزوں کے نامزد کردہ خان شاہ نواز خان کو اس کے انگریز محافظ فوج کے ساتھ شکست دے کر بلوچوں کی حاکمیت اپنے ہاتھ میں لے لی مگر بعد میں ایک برتر حیثیت رکھنے کے باوجود انہوں نے انگریزی حکومت سے اپنی حاکمیت کی سند حاصل کرنے کی غرض سے ان کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرلیا جس کے ذریعے ان کی حیثیت انگریزی راج کے ایک ماتحت و فرمانبردار امیر کی سی ہوگئی۔

خان محراب خان کے ذکر کے بغیر بلوچستان کی تاریخ رقم ہی نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خان محراب خان ہی بلوچوں کا اولین و آخری آزاد اور خودمختار حکمران تھا۔ جس نے اپنے تمام دور حکومت میں نہ افغانستان کی بالادستی کو قبول کرلیا نہ انگریزی قوت کے سامنے جھکنا گوارا کیا۔ شاہ شجاع کو اپنے ہاں پناہ دیتے وقت جب افغانستان کے نئے حکمران نے اس کا تعاقت کرتے ہوئے اس کی حوالگی کا مطابلہ کیا تو خان نے جواب دیا کہ ’’شاہ شجاع اب میری باہوٹی میں آچکا ہے اسے گزند پہنچانے کے لئے اگر افغان فوجیں آگے آگئیں تو مجھے مقابلے پر پائیں گی‘‘۔ اس پر افغان فوج منگوچر سے ہی واپس ہوگئی تھی۔

ایک دوسرے موقع پر اس کے دربار کا ایک وزیر آخوند فتح محمد جب حاکم قندھار کے پاس اپنے بیٹے کے قتل کے سلسلے میں فریادی بن کر گیا اور اس نے محراب خان سے مطلوبہ قاتلوں کو پکڑ کر اپنے دربار میں بھیجنے کی ہدایت کی تو وہ بپھر گیا اور جواب دیا کہ یہ میری ریاست کا اندرونی معاملہ ہے تم اس میں دخل اندازی کرنے کے مجاز نہیں ہو اور حاکم قندھار کو یہ تلخ جواب سن کر خاموش ہونا پڑا اسی طرح خان محراب خان نے انگریزی حاکموں کی کسی بات کو بھی ‘ کبھی بھی اپنی حاکمیت سے بالاتر نہیں سمجھا۔

’’اس نے ایک غلام بلوچستان میں ذلت کی زندگی گزارنے کی بجائے اس کی آزاد فضاؤں میں مرجانے کو ترجیح دی‘‘۔

حوالہ: بگٹی۔ عزیز محمد۔ بلوچستان، شخصیات کے آئینہ میں۔ صفحہ 89-97
پبلشرز: فکشن ہاؤس