شہدائے بلوچستان کو سرخ سلام-شفیق الرحمٰن ساسولی

493

شہدائے بلوچستان کو سرخ سلام

تحریر:شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ ایک حیات قوم ہے، اپنی تشخص، ننگ و ناموس، ساحل وسائل پر حقِ ملکیت کے لئے اپنے جان کا نذرانہ دینے سے گریز نہیں کرتی۔ بلوچ قومی وقار کیلئے قربانیاں دینے والے شہداء کی طرزِ جہد پسماندگاں کیلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دشمن کو اب سمجھنا چاہیئے کہ بلوچ قوم اپنی تشخص اور وقار کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ بلوچ کی تاریخ شہداء کی اَن گنت قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔

یہ واضح ہیکہ اپنے نظریہ اور قومی تشخص کو ہراک شئے سے بڑھ کر تصور کرنے والے اقوام یقینی طور پر ناقابلِ شکست رہتی ہیں۔ دُنیا کی تاریخ میں وہ قومیں زندہ ہیں جنہوں نے ہرکٹھن وقت میں اپنے اِتّحاد و یکجہتی اور قومی اقدار کو برقرار رکھا ہے، ایسے ہی زندہ و جاوید قوموں کی فہرست میں بلوچ قوم ایک عظیم مثال ہے جس کی تاریخ میں بے شمار فرزندانِ قوم بہادری اورجرات کی لازوال قومی روایات کی پاسداری کرتے ہوئےاپنے قومی تشخص وسربلندی اور وسائل پردسترس کےلئے اپنا لہو بہانے سے بھی گریز نہیں کئے۔ اس عظیم قوم سے تعلق رکھنے والے قومی جذبے سے سرشار شہداء نواب نوروزخان زرکزئی، جام جمال خان زہری، مستی خان موسیانی، ولی محمدزرکزئی، بہاول خان موسیانی، بٹھے خان زرکزئی ،سبزل خان زرکزئی، غلام رسول نیچاری سمیت ہزاروں شہداء شامل ہیں۔

سال میں کوئی بھی ایسا دن نہیں جو کسی شہید بلوچ کی برسی نہ ہو، استعماری قوتوں نے سال کا کوئی ایسا دن نہیں چھوڑا ہے کہ ہم یاد کرسکیں کہ تاریخ کا یہ دن ہمارے لہو بہے بغیر گزراہے۔ تاہم مشترکہ طور پر 15 جولائی، 8 اگست، 13 نومبر جیسے خاص کئے گئے ایام میں شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے تعزیتی ریفرنسز کا انعقاد کیاجاتاہے۔ 15 جولائی یوم شہدائے بلوچستان کی مناسبت سے نواب نوروز خان زہری و ہفت شہیدانِ وطن سمیت بلوچستان کے تمام شہیدوں اور گمنام عقوبت خانوں میں اذیت سہتے سیاسی کارکنوں و فرزندان بلوچستان کو سرخ سلام، جنہوں نے غیرجمہوری قوتوں، آمروں، نوآبادیاتی آقاوں و زمینی خدائوں کی طرف سے ڈھائے گئے ظلم و زیادتیوں کے سامنے سینہ سپر رہ کر جامِ شہادت نوش کیا اور باقی ہزاروں کی تعداد میں عقوبت خانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔

بلوچستان بالخصوص بلوچ قوم پر ظلم ڈھانے کا سلسلہ کبھی تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ استحصالی و استعماری قوتوں نے کچھ غلام ذہنیت توانائوں کو چارہ ڈال کر ناتواں اور کمزوروں کا بدترین استحصال کیا، باقی بلوچ قوم استعماری لوٹ مار کے نتیجے میں بھوک افلاس قحط اور کینسر جیسے بیماریوں کی زد میں آگئی۔ اور جب استعماری لوٹ مار کے خلاف غیور و نظریاتی پیر و جوان نے آواز اٹھائی کہ افلاس، بھوک، پیاس، قحط، غربت، جہالت، پسماندگی اور بیماریاں نہیں بلکہ بلوچستان کے وسائل کے عوض بلوچستان کے عوام کو خوشحالی دی جائے۔جب جمہوری انداز سے سیاسی مزاحمت کی تو نتیجے میں ظلم کے اور حربے آزمائے گئے،بھوک افلاس غربت بیماریاں تو بلوچ قوم کے مہمان بن کر ہی رہے مزید برآنکہ استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو قرآن کے نام پر بھی دھوکہ دیاگیا۔ قول و قسم اور وفا کے بدلے اس قوم کو شہید نواب نوروزخان زرکزئی، شہیدجام جمال خان زہری، شہید مستی خان موسیانی، شہید ولی محمدزرکزئی، شہید بہاول خان موسیانی، شہید بھٹے خان زرکزئی ،سہید سبزل خان زرکزئی، شہید غلام رسول نیچاری کی لاشیں دی گئیں۔

ان سب کے باوجود بھی سینے پہ پتھر رکھ کر اس بہادر قوم نے اپنے شہیدوں کو آسودہ خاک کیا۔ مگر استعمار کے سوچ کے بالکل برعکس شہیدوں کے لہو نے سیاسی آواز کو اور جلا بخشی، بلوچ وسائل کی حفاظت، صحت و تعلیم کیلئے شعور نے موثر آواز اٹھائی، سات سو میل کی ساحلی پٹی پر آباد طویل جغرافیہ کے مالک بلوچ عوام نے سیاسی و سماجی آزادی اور انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، بدلے میں بلوچ دشمن عناصر نے بلوچستان کے زیرک سیاستدانوں و سیاسی کارکنان کی زندگیاں چھین لیں اور باقیوں کو گمنام عقوبت خانوں میں پھینک دیا۔

بلوچ سرزمین کے بہادروں نےآج تک حقیقی و نظریاتی سیاسی جہد سے دستبرداری قبول نہیں کی۔

اس کی واضح مثال بلوچ قوم کے بہادر ہیرو شہید نورا مینگل، شہید خان مہراب خان، شہید نواب نوروز خان زہری، شہید نواب اکبرخان بگٹی سمیت تاریخ میں بے شمار فرزندانِ قوم ہیں جنہوں نے بہادری اورجرات کی لازوال تاریخ رقم کرتے ہوئےاپنے قومی تشخص وسربلندی اور وسائل پردسترس کےلئے اپنا لہو بہایا۔ بلوچ قومی حقوق کیلئے جہد کے پاداش میں نواب خیر بخش مری نے بے شمار اذیتیں برداشت کیں۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل، اخترجان مینگل کئی مشکلات سے نبردآزما ہیں اور وہ آج تک بلوچستان کے پہلے بلوچ مسنگ پرسن اسداللہ مینگل کا دکھ سہہ رہے ہیں۔

آج کے دن تک ہمارے ہزاروں فرزندانِ وطن لاپتہ ہیں۔ زندانوں میں اذیت سہتے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے مزید آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، اور ضروری ہیکہ استحصالی قوتوں سے بھرپور سیاسی مزاحمت بِلا تعطل جاری رہے۔

15 جولائی سمیت ہر اس دن سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیئے جس جس دن ہم نے اپنے پیاروں کے لہو بہتے دیکھا، جس جس دن اپنے جوانوں کو عقوبت خانوں کی نذر ہوتے پایا لہذا ایسے ایام ہم سیاسی کارکنوں سے تقاضا کرتی ہیں کہ سیاسی میدان میں دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے نظریاتی سیاست اور سیاسی کلچر کو پروموٹ کریں، بلوچ قومی سوچ کے حامل نواب و سردار، میر و ٹکری، وڈیرہ، مولانا، دانشور، نظریاتی سیاسی کارکنان اس دھرتی کے اثاثے ہیں تاہم سیاسی خول میں چُھپے استحصالی ذہنیت کے حامل نوابوں، سرداروں، میروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، ٹکریوں، ملائوں، دانشوروں اور سیاسی کارکن کے لبادے میں مفاد پرستوں کو اپنے سیاسی پروگراموں سے نکال باہر کرنا ہوگا۔ بلوچ قوم کے نسلِ نو کوسیاسی لٹریچر دینے، اپنی اجلاس و اجتماعات کو مکمل سیاسی بنانے اور سیاست کو کیپیٹلسٹ اور فیوڈلز سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں