شبیر کی لقاِ کو ترستی سیما – امین بلوچ

345

‎شبیر کی لقاِ کو ترستی سیما

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎چار سال کا عرصہ پلَ بھر میں گذر جاتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا لیکن غم فراق میں چار سال کا عرصہ اتنا طویل اور درد ناک ہوتا ہے کہ صدیوں پہ محیط ہوتا ہے۔ جدائی کا غم کیا ہوتا ہے؟ درد و تکلیف کیا ہوتا ہے؟ تڑپ تڑپ کر اپنے پیاروں کو یاد کرکے راتیں کیسے گزرتی ہیں؟ انتظار کی اذیت میں کیسے جیا جاتا ہے؟ لیکن اس درد کو صرف وہی انسان محسوس کرسکتا ہے جسکے سینے میں انسانوں کا دل ہوتا ہے۔

‎بلوچستان جسے ریاستی اداروں نے گمشدہ لوگوں کی سرزمین اور قفس ابلیس میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں ایک دہائی سے ماورائے عدالت گرفتاریاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ، آئے روز نوجوان اور خواتین سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو لاپتہ کرکے قفس ابلیس میں رکھا جاتا ہے۔جہاں نہ جبرئیل پیغام رسانی کے لئے وارد ہوسکتا ہے اور نہ ہی اسرافیل کو صور پھونکنے کی اجازت ہے۔ یہاں گذر صرف اور صرف ابلیس اور اسکے کارندوں کا ہوسکتا ہے جو لاپتہ افراد پہ ظلم کے پہاڑ توڑنے پہ مامور ہیں ۔

‎لاپتہ ہونے والے لوگ ایسے غائب ہوجاتے ہیں کہ انکے عزیز و اقارب دس دس سال انتظار کے کرب سے گزرتی ہیں اور اپنے پیاروں کی لقاِ کو دیکھنے کے لئے ترستی ہیں ۔

‎ذاکر مجید کی ماں اپنے بیٹے کے لئے عدالتوں اور کمیشنوں کے سامنے پیش ہوئی، پریس کلب میں پریس کانفرنس اور احتجاج کے طریقے آزمائے لیکن ہر سوُ ویرانی ہی ویرانی نظر آئی کہیں بھی روشنی نظر نہیں آئی۔سمی اور مہلب گیارہ سال کس کرب سے گزری ہیں اس کا اندازہ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے۔

‎سیما ، زرینہ، ہانی گل، فریدہ، فاطمہ نجانے اور کتنی خواتین اپنے پیاروں کے لئے سراپا احتجاج ہیں لیکن انہیں کیا ملا صرف دلاسا تسلی اور تاریخ کیونکہ عدالتوں سے لیکر اعلی ادارے حکم ابلیس کے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔

‎ایسے انتظار کرتی ہزارہا مائیں، بہنیں، بچے، بچیاں روز تڑپتی ہیں۔ کبھی پریس کلبوں میں،کبھی کسی کورٹ کے سامنے،کبھی ریاستی کمیشن کے سامنے لیکن یہ فراق ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتا یہ انتظار کے لمحے روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔

‎بلوچستان گمشدہ لوگوں کی سرزمین ہے جہاں ایک سیما اکیلی اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے پریس کلبوں پہ احتجاج کے لئے مجبور نہیں بلکہ پینتالیس ہزار سیمائیں اپنے پیاروں کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ ہر سیما روز تڑپتی ہے۔ ہر حسیبہ حکمرانوں کے سامنے چیخ چیخ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتی ہےلیکن بلوچ کے سوا بلوچ کے درد کو کون محسوس کرسکتا ہے۔

شبیر بلوچ ایک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مرکزی انفارمیشن سیکرٹری جو پر امن ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے قومی آزادی کی جدوجہد کا حصہ تھے اور بلوچ نوجوانوں میں آزادی سے محبت اور غلامی کے خلاف نفرت کا پرچار کررہے تھے لیکن انہیں انکی اہلیہ کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا۔آج چار سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور انکے بازیابی ایک معمہ کی صورت اختیار کی ہوئی ہے۔

‎سیما اور زرینہ چار سالوں سے یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے آواران سے نکلی ہیں کبھی شال کی سردی میں اور کبھی کراچی کے سڑکوں پہ اور کبھی ابلیسی کمیشنوں کے سامنے کہ شبیر کہاں ہے کس حال میں ہے؟ اسے کیوں لاپتہ کردیا گیا ہے لیکن ابلیسی کمیشنوں کو یہ تین سوال ایسے چھبتے ہیں کہ وہ ان کا جواب دینے کے بجائے دھونس و دھمکی، بے مروتی اور نجانے کیسی کیسی تاویلیں پیش کرتے ہیں جن سے وہ خود ہی مطمئن نہیں بس اپنی روزی حلال کرنے کے لئے خلائی مخلوق کے احکامات کی پیروی کرتے رہتے ہیں۔

‎بھائی کی جدائی، بیٹے کی جدائی، شوہر کی جدائی کا درد وہی محسوس کرسکتا ہے جو غم فراق سے گزر چکا ہو۔ بلوچستان کے نام نہاد ژولیدہ سر حکمران اور ریاستی آلہ کار غم فراق کی تڑپ کو کیا جانے۔ وہ کیا جانے شبیر کی لقاِ کو ترستی سیما کی دید میں ایک طوفان مچلتا ہے اور یہ طوفان ریاستی آلہ کاروں کی طاقت کو تہس نہس کرکے اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی سکت رکھتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔