‏اجنبی – امین بلوچ

477

‏اجنبی

تحریر: امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایسا وقت جویاد کرنے کے قابلِ ہو، ایسا نظارہ جو دیکھنے کے قابل ہو، ایسا اجنبی جسکا کوئی نام نہ ہو، ایسا مسئلہ جسکا کوئی حل نہ ہو، ایسا درد جسکا کوئی علاج نہ ہو، ایک ایسی پریشانی جسکی خوشی نہ ہو، ایک ایسا سفر جسکا کوئی اختتام نہ ہو، پھر اس درد میں بندہ اکیلا ہو، یہ کتنا درد ناک ہوسکتا ہے، میں تھا لیکںن میں اکیلا تھا کوئی بھی نہیں تھا کوئی ساتھ دینے کا استقامت بھی نہیں رکھتا تھا، میں جارہا تھا بہت دور جارہا تھا سمجھ نہیں آتا میں کیوں جارہا ہوں، مگر جارہا تھا بہت پریشان کن حالات میں جارہا تھا لیکن میں کبھی حرکت میں نہیں تھا مگر سفر پہ نکلا ہوا تھا۔ کوئی بھی ساتھ نہیں تھا یوں لگتا تھا خدا سے دعا مانگنا بھی نہیں ہوتا کیونکہ دعائیں بھی نیم سفر واپس ہورہے تھے۔

جاتے ہوئے محسوس ہوا ایک ایسا اندھیرا جس کی کوئی حد نہیں ہو، ایک ایسی خاموشی جہاں صدیوں سے انساں تو کیا حیوانات کا بھی جنم نہیں ہوا تھا لیکن ابھی حرکت میں تھا کہیں جاکر رک گیا، میرے منہ کو ایک کالے کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا۔ تھوڑی دیر اور پیدل مارچ کروایا گیا پاؤں میں پتھر نما سخت چیز ٹکرارہی تھے، میں نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ خدا کیلئے مجھے بتادو میرے پیر تباہ ہوگئے، وہ ایک دفعہ بولا چپ رہو مگر کیا میرے پیروں میں درد تھے؟ میں پھر پوچھا بتاؤ یہ کیا ہیں، جو میرے پیروں سے ٹکرارہی ہیں؟ اس نے کہا ہڈیاں ہیں، میں نے بڑے خوف سے پوچھا ہڈیاں؟ کس چیز کی ہڈیاں جواب ملا انسان کی ہڈیاں۔

یاخدا! یہ کیا نظارہ ہے، کیا یہاں انسان کبھی ہوا کرتا تھا، اچانک منہ سے کپڑا ہٹادیا گیا، میں نے دیکھا آسمان زمین سے معافی مانگ رہی تھی میں نے دیکھا خدا انسان کے روپ میں زمیں پر آکر خوب رو رہا تھا، میں نے پوچھنے کی کوشش کی لیکن منہ سے آواز نہیں نکلی، میں نے سوال کیا یہ کون ہے؟ جو بندہ مجھ یہاں ے لایا ہے ، یہ سب کون ہیں؟ یہ کونسی جگہ ہے؟ یہاں مجھے کیوں لایا گیاہے ؟ میرے ساتھ سب تھے لیکںن میں کسی کو نہیں دیکھ پا رہا تھا ، میرے باتوں کا جواب تین جاہل ایک ساتھ دے رہے تھے لیکن مجھے انکی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی بلکہ میں انکو دیکھ بھی نہیں رہا تھا اچانک میرے سامنے کوئی آکر زور سے ہنسنے لگا۔ میں نے پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا سامنے سے آواز آئی آگے دیکھو میں نے آگے دیکھا تو بھی کچھ نہیں دیکھا پھر پیچھے سے آواز آیا پیچھے دیکھو جب میں نے پیچھے کی طرف دیکھا ایک عورت کھڑی نظر آئی مجھے سرخ بال اور بڑے قد اور خوبصورت جسم کی مالک عورت نظر آئی لیکن اپنا چہرہ مجھ سے چھپا کے رکھی ہوئی تھی۔

میں نے کہا کون ہو آپ ؟ وہ ایک بار زور سے ہنسنے لگی، میں نے کہا آپ ہنس رہی ہو، اور میں پریشانی کی حالات میں روتا ہوں۔ مجھے پتہ نہیں چل رہا ہے میں کہاں ہوں میں یہاں کیوں آیا ہوں لیکن افسوس آپ ہنس رہی ہو۔ ہو سکتا ہے شاید آپ کو یہی سکھایا گیا ہے وہ ایک آہ! زور سے نکالتی ہوئی کہتی ہے، پہلے آپ نے کوئی غم و رنج دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے دیکھا ہے، بہت دیکھا ہے۔

میں نے اپنے دھرتی پر ماں بہنوں کو خون کے آنسو روتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے بہنوں کو اپنے بھائی کی لاش کو سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے حسیبہ اور اور انکے پیران سالہ ماں کو اسلام آباد ڈی چوک پر رات کے 3 بجے تہجد نماز پڑھتے ہوئے اپنے بے بس رب کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے، جی ہاں میں نے یہ بھی دیکھا ہے۔ خدا کو معزرت کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، میں نے اپنی بہن سمی کو دین جان کا نام زور سے پکارتے ہوئے بھی دیکھا ہے، میں نے مہلب کو روتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے سمی کو یہ بھی کہتے ہوئے دیکھا ہے،میری گناہ کیا ہے میں 11 سال سے اسی بے بسی لاچاری میں زندگی بس کر رہی ہوں؟ سمی نے دین جان کا نام لیتے ہوئے خدا کو بھی رلایا، میں نے ذاکر جان کی ماں کو بھی خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا ہے، اے اجنبی عورت شاید آپ نے کبھی ظلم نہیں دیکھا، مگر میں یہ سب سہہ کر آیا ہوں ، وہ اجنبی ایک بار پھر زور سے ہنسنے لگی، میں نے پھر جواب دیتے ہوئے کہا کیا میں جنت اور جہنم کے پاس تو نہیں ہوں؟ شاہد آپ خدا کے کوئی ولی یا فرشتہ ہو؟ یا کوئی سوال جواب کرنے والے ہو؟ آپ ہنس کیوں رہی ہو؟ آپ کی ہنسی سے لگتا ہے، آپ نے کبھی ظلم نہیں سہا۔ مبارک ہو! آپ کہاں پیدا ہوئی ہو؟

وہ پھر ہنسنے لگی منہ موڑ کر میری طرف دیکھنے لگی ایک ایسی صورت شاہد کبھی میں نے نہیں دیکھا تھا، کوئی جنت کے حور تک بھی اس طرح نہیں ہوسکتی۔ میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا کیا آپ خدا ہو؟ وہ جواب دیتے ہوئے بولی نہیں نہیں نعوذباللہ کیا خدا عورت ہے؟ نہیں نہیں وہ چھوڑ دیں، یہ بتائیں آپ کون ہیں ؟ آپ یہاں کیوں آئے ہو؟ آپ نے پہلے مجھ سے کیوں اپنا نام چھپایا؟ آپ کا نام کیا ہے؟ آپ ایک عورت ہوکر ویرانے اور اندھیرے میں اکیلی کیا کررہی ہو؟ میں نے گھبراتے ہوئے سب سوال ایک ساتھ اس سے کردیئے۔

اس نے روتے ہوئے کہا، سنو میری داستان ، جتنا ظلم مجھ پر ہوا ہے، گر پہاڑ پر ہوتا وہ بھی ٹوٹ جاتا، میں نے پریشانی کی حالت میں پوچھا آپ کون ہیں؟ آپ کہاں سے ہو؟ وہ بولی میرے شوہر نبی داد گھر سے باہر نکلا، اسکے بعد کبھی واپس نہیں لوٹا، میں شوہر کی تلاش میں گھر گھر گلی گلی جاکر کر رونے لگی ، لوگوں کو آگاہ کرتی رہی اور اسکو یاد کرتی رہی مگر وہ مجھے آج تک نہیں ملا ، جب میں واپس اپنے گھر آئی دیکھا میرا 5 سالہ بچہ رحیم اور 8 سالہ بچی سلمی کی گردنیں سر سے جدا ہیں، دونوں کی خون سے لت پت لاش پڑی ہوئی ہیں، آہ! وہ دن کتنا غم ناک تھا۔ اجنبی عورت ایک بار پھر خاموش ہوکر گر پڑا میں نے اٹھانے کی کوشش کی لیکن میرا جسم سن ہوچکا تھا میں حرکت نہیں کر سکا اچانک وہ خود اٹھ کر کھڑی ہوگئی پھر شروع کیا اپنا غمناک قصہ۔

پورا گھر خون سے بھرا ہوا تھا، خون گھر سے نکل کر باہر روڑ پر جمع ہورہا تھا، اچانک گھر کے دروازے پر کوئی زور سے دستک دیتے ہوئے بولا ماہ گل آپ کہاں ہو؟ کسی نے آپ کے بڑے بیٹے کو اسکول میں جاکر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، جب وہ اندر آیا دیکھا کہ میری بدبخت گھر میں قیامت برپا ہوچکی ہے، تو وہ بھی تڑپ تڑپ کر مرگیا، وہ بھی میری چھوٹی بہن تھی، آج تک میں ظالم دنیا میں اکیلی گھوم پھر رہی ہوں، کوئی بھی عالم، کوئی بھی قاضی، مجھے انصاف نہیں دلا سکا۔ آج تک میرا شوہر غائب ہے ،اسکے بارے میں آج تک میں الجھن میں ہوں وہ کہاں ہے اور کس حالات میں ہے کیا یہ سب ظلم کم ہیں؟

مبارک ہو ماہ گل، اتنے ظلم کے باوجود آپ باوقار اور خوبصورت رہ کر ہنستی ہو، نہیں نہیں میں صرف باہر سے ہنستی ہوں اندر سے میرا کوئی دل نہیں۔ میری آنکھوں سے آنسو خشک ہوچکے ہیں، کیا یہ سب ظلم کم ہیں؟ جاؤ ابھی سمی کو بتا دو ، یہ ظالم لوگوں کا کوئی ایمان نہیں ہے ، ان ظالموں کیلئے کوئی انصاف کا کٹہرا نہیں ہے۔ یہ فرعون ہیں، ہاں ایک اور بات میں بھول گئی، آپ کیوں یہاں ہو، آپ کون ہو؟ میں نے کہا میں آیا نہیں ہوں صاحبہ مجھے لایا گیا ہے، وہ بولی، بتائیں باہر آزاد دنیا میں کیا ہورہا ہے؟

میں نے جواب دیا سب پریشان تھے، باشعور نوجوان اندھے ہوچکے تھے، سب خود کو ارسطو ، سقراط اور افلاطون سمجھ کے بیٹھے تھے قوم کے مستقبل معماروں پر الزام تراشیاں خوب جاری تھے، باشعور نوجوان کبھی بھی قوم کو اس ظلم اور زنجیروں سے آزاد کرنے نہیں چاہتے تھے، وہ سب ظالم کے صف میں ایک تھے، وہ بہت غمزدہ ہوکر بولی خداکیلئے ایسا نہیں بولو، میں تو سمجھا سب ٹھیک ہوچکے ہیں۔ میں نے پھر جواب دیا آپ مایوس نہیں ہونا، وہاں سب نوجوان اس طرح نہیں کچھ لوگ جو اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ اور رہبر سمجھتے تھے وہی آج رستہ بدلتے ہوئے مایوس ہیں ، اپنے ذات تک محدود ہیں ، وہ ایک بات کہہ کر رخصت ہوئی “نوجوانوں اگر نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے ، کٹ جاؤگے، تمہاری داستاں، داستانوں تک میں نہ رہے گی”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں