بلوچستان کی سلیکٹڈ حکومت – سمیر رئیس

379

بلوچستان کی سلیکٹڈ حکومت

تحریر: سمیر رئیس

دی بلوچستان پوسٹ

نالائق حکمرانوں کی وجہ سے لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان سب سے زیادہ غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں امن و سلامتی ہو، خطرات و خدشات سے پاک ہو اور دیرپا امن و امان قائم ہو، ان لوگوں کی دلی خواہش ہے کہ بلوچستان میں ہمیشہ کی طرح جنگ و جدل برقرار رہے۔

دکھائیں ہمیں وہ حکومت جو بلوچستان کی تاریخ میں اب تک جس نے اپنا جمہوری و آئینی فرض نبھایا ہے؟ یہ حکومت جب بھی بجٹ پیش کرتی ہے وہ بھی بلوچ دشمنی کا ثبوت دیتی ہے، کہاں گئے وہ ترقیاتی فنڈ جو بلوچستان کے شاہراہوں پر خرچ ہونے والے تھے؟ جب یہ لوگ اسمبلی کے فلور پر بڑی بڑی تقریریں کر رہے تھے، ان لوگوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے پہلے ترجیحات بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو اعلیٰ کوالٹی کا تعلیم دینا ہے بلوچستان کے ضلعی سطح پر وہی پرانے اسکولوں کے کئی سال پہلے موجود عمارتوں کی ٹوٹی ہوئی دیواریں اور چھتوں کے نیچے طلبہ مجبور ہوکر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔

کچھ باتیں واضح کرتا چلوں، بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، بلوچستان کا ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے، بلوچستان کے اضلاع کیچ آواران قلات اور دیگر کچھ اضلاع میں 4G انٹرنیٹ کنکشن پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے بند کر دیا گیا ہے، آخر کیوں اتنا ظلم کیا جا رہا ہے؟ آخر ہم سے کس جنم کا بدلہ لینا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک کسی نے پوچھنے کا جرات نہیں کی کہ انٹرنیٹ بند کرنے کا سبب کیا ہے؟ ایم این اے اور ایم پی ایز کو جو بغیر عوام کے ذریعے سلیکٹ ہوئے ہیں انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ کتنے سالوں سے انٹرنیٹ کے بغیر درجنوں کاموں میں دشواری ہو رہی ہے ہر طبقہ مایوسی کا شکار ہو رہا ہے۔

قوم کے مستقبل کے معمار آج اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جگہ ہوٹلوں اور گیراجوں میں کام کر کے اپنے دو وقت کی روٹی کمارہے ہیں اگر آج ہمارے حکمرانوں کی توجہ تعلیم اور روزگار پر ہوتی تو ہم اس دلدل سے باہر نظر آتے لیکن ایک اور مسئلہ زیر غور ہے کہ ہر کوئی اپنے دور اقتدار کے بعد اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

یہ حکومت بس اب نام کا حکومت رہ چکا ہے، اس میں نہ کوئی جان ہے نہ کام کرنے کا سکت اس کے اندر بچی ہے بلوچستان کے ہر گلی کوچے میں لٹیروں کا راج ہے اب حکومت کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بے بس و لاچار بن گئے آج اگر اخلاقی اصولوں پر قائم کوئی نظام ہوتا تو آج ہر دنگا فساد پھیلانے والے اپنے کرتوتوں سے باز آتے، بلوچستان حکومت اس حد تک گر چکی ہے کہ حکومتی وفد ہر سانحہ کے بعد لوگوں کو جھوٹی تسلی دے کر چلے جاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔