دہشت گردی کے استعمال تک پاکستان سے خاطر خواہ بات چیت ممکن نہیں – انڈیا

177

واشنگٹن میں بھارت کے سفیر ہارش شرنگلا کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان   دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کرتا رہے گا اور بھارت اس پالیسی سے متاثر رہے گا، اس کے ساتھ کوئی خاطر خواہ بات چیت ممکن نہیں-

 دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق بھارتی سفیر  نے کہا کہ جس دن پاکستان دہشت گردی کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش ترک کر دے گا، پھر حکومت کے اختیار میں ہوگا کہ بہتر تعلقات کا آغاز کرے۔

بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے اختتام پر بھارتی سفیر نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے دوسرے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جیسا کہ بنگلہ دیش اور نیپال۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفیر ہارش نے کہا کہ بھارت کے لئے امریکی برآمدات میں 30 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

بقول ان کے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی کمپنیاں انڈیا میں بہت خوش ہیں۔ اس وقت تقریباً دو ہزار ایسی کمپنیاں ہیں جن کے دفاتر بھارت میں ہیں۔ ان میں سے پانچ سو بڑی کمپنیاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کئی بھارتی کمپنیوں نے امریکہ میں کافی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ تو یہ اچھے تعلقات ہیں جن میں دونوں کا باہمی فائدہ ہے، اور یہ کہ  بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم دونوں ممالک جمہوری اصولوں پر کاربند رہنے کے پابند ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں سفیر ہارش نے کہا کہ بھارت اپنا دس فی صد خام تیل ایران سے حاصل کرتا تھا۔ مگر، اب ان کے ملک نے ایرانی تیل پر انحصار کم کر دیا ہے۔

سفیر نے بتایا کہ اس سال مئی کے مہینے سے ہم نے ایران اور وینیزویلا سے کوئی تیل نہیں لیا۔

امریکہ اور بھارت کے درمیان جن تجارتی معاملات پر کشیدگی پائی جاتی ہے ان میں بھارت کا ایران سے تیل خریدنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ انڈیا ایران سے تیل کی درآمدات میں کمی کرے۔

پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے واضح کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک بھر میں اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے، جن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں شاید نسلی اور مذہبی اقلیتیں آباد ہیں۔ اور یوں، اِن انتخابات نے معاشرے کو تقسیم نہیں، بلکہ بھارت کے لوگوں کو متحد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1971 کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کوئی وزیر اعظم دوسری مدت کے لئے منتخب ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرز نے نریندر مودی پر اعتماد کیا ہے۔ انہوں نے نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ووٹ نہیں ڈالے، بلکہ ان کی کارکردگی کو مدِ نظر رکھا ہے۔