کوئٹہ: مغوی ڈاکٹر بازیاب نہیں ہوسکا، ڈاکٹر تنظیموں کا احتجاج برقرار

143

ڈاکٹر ابراہیم کی بازیابی کے لئے ابھی تک حکومت نے کوئی تسلی بخش اقدام نہیں کیا – بیگم ڈاکٹر ابراہیم خلیل

ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بیوی اور دیگر ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ مغوی ڈاکٹر کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے اور اغواکاروں کے نیٹ ورک کے خلاف بھرپور کارروائی کر کے اُن کا قلع قمع کیا جائے۔

سول سنڈیمن اسپتال کوئٹہ میں ہفتے کو پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹرز ایکشن کمیٹی کے رہنما، پروفیسر ڈاکٹر ظاہر خان مندوخیل اور ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی زوجہ کا کہنا تھا کہ اغوا کی اس واردات کے بعد تمام ڈاکٹروں کے خاندان کے افراد اور بچے سخت پریشان ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بیگم نے شکوہ کیا کہ اُن کے شوہر کی بازیابی کےلئے ابھی تک حکومت نے ”کوئی تسلی بخش اقدام نہیں کیا”۔

بقول اُن کے ”رات کو بھی میں ایک ذہنی مریض کی طرح پریشان رہتی ہوں۔ بچے مجھ سے اپنے ابو کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ میں آپ لوگوں کی طرف دیکھتی ہوں۔ اللہ کے بعد اگر مجھے کوئی سہارا ہے تو آپ لوگوں کا ہے۔ میں تاوان کی رقم ادا نہیں کرسکتی”۔

اُنھوں نے کہا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل صاف ستھری زندگی گزارتے تھے اور صرف حکومت کی ملازمت کرتے تھے۔ اُنہوں نے کسی پرائیویٹ اسپتال میں کام نہیں کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ”میں اغواکاروں کو کہاں سے پیسے ادا کرونگی۔ اگر میں تاوان کی رقم ادا نہیں کرسکتی تو کیا میرے بچوں کو یتیم ہونا پڑیگا؟ کیا مجھے بیوہ ہونا پڑیگا؟ ہمارا قصور کیا ہے؟”

ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے لئے تشکیل دی گئی دونوں کمیٹیاں بھرپور طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر خلیل کے موبائیل فون کا ڈیٹا چیک کرنے سے پولیس کو کچھ شواہد ملے ہیں جن پر کام ہو رہا ہے اُمید ہے کہ ہم جلد اغواکاروں تک پہنچ جائیںگے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ابھی تک پولیس کو اور نہ ہی ڈاکٹرخلیل کے اہل خانہ کو تاوان کی ادائیگی کے سلسلے میں کوئی کال موصول ہوئی ہے۔

بلوچستان میڈیکل ٹیچر ایسوسی ایشن کے رہنما ڈاکٹر خلیل نے ‘وائس آف امریکہ’ سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ”اغوا کی اس واردات کے بعد تمام ڈاکٹروں اور اُن کے اہل خانہ میں خوف پایا جاتا ہے، کیونکہ ڈاکٹر اسپتال میں اور نہ ہی بازار کہیں محفوظ ہیں”۔

بقول اُنکے ”صوبہ بھر میں ڈاکٹروں کے جتنے خاندان اور عزیر و اقارب ہیں وہ خود ذہنی کیفیت سے دو چار ہیں کہ پتا نہیں ڈاکٹر اپنے گھر سے نکلے تو واپسی کی صورتحال کیا ہوگی۔ گھر پہنچ سکیں گے یا نہیں؟”

بلوچستان کے 33 میں سے 28 اضلاع کے ہیڈکوارٹرز میں سرکاری اسپتال قائم ہیں۔ لیکن، ان میں سے بیشتر اسپتالوں میں مناسب طبی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔

صوبہ بھر کے لوگوں کو مختلف ٹیسٹ کرانے کےلئے کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔ مریضوں کے معائنے اور مختلف ٹیسٹ کےلئے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں 24 گھنٹے ڈاکٹر موجود رہتے ہیں، لیکن ڈاکٹروں کے اغوا کے واقعات کے بعد اب اُن کے خاندان کے افراد بھی اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کیا اپنا فرض ادا کرنے کے بعد ڈاکٹر اب صحیح سلامت گھر پہنچ سکیں گے یا نہیں۔