بلوچ قومی تحریک کے خلاف سازشیں اور قیادت کی ذمہ داریاں – سعید بلوچ

419

بلوچ قومی تحریک کے خلاف سازشیں اور قیادت کی ذمہ داریاں

تحریر: سعید بلوچ

 دی بلوچستان پوسٹ : کالم

پاکستان بلوچ قومی تحریک کو بین الاقوامی سطع پر کاؤنٹر کرنے کے لیئے بھر پورسازشوں کا آغاز کرچکا ہے، اس سے پہلے مختلف ممالک میں قائم پاکستانی سفارتخانوں کو بلوچ تحریک اور بیرون ممالک مقیم بلوچ قیادت اور کارکنوں کے خلاف استعمال کیا جارہا تھا، پنجابی کمیونٹی کے ذریعے مختلف فورمز پر بلوچ قومی تحریک کے خلاف مختلف سازشیں رچائے جارہے تھے۔ ریاست کا یہ حربہ زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کرسکا، اس کے بعد کٹھ پتلی بلوچستان حکومت میں شامل وزراء کو امریکہ، برطانیہ، سوئٹزرلیںڈ، فرانس، جرمنی، جاپان، سمیت دیگر ممالک میں تحریک کے خلاف مہم چلانے کے لئے بھیجا گیا اور اُن کے لیئے مختلف ممالک میں میٹنگ اور سیمنیارز منعقد کرائے گئے۔ پاکستان دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور وہ آزادی نہیں چاہتے بلکہ سی پیک سمیت دیگر ترقیاتی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، اس کے علاوہ وہ یہ ثابت کرنا چاہا رہے تھے کہ بلوچستان میں کسی قسم کا کوئی فوجی ایکشن نہیں ہورہا لیکن پاکستان کے اس سازش اور بیانیے کو بھی عالمی فورمز پر مسترد کیا گیا۔ جب پاکستانی ایجنسیوں نے دیکھا کہ اس طرح کے حربوں کے استعمال سے اُنہیں خاطر خواہ کامیابی اور نتائج نہیں مل رہا ہے، تو اُنہوں نے بلوچ تحریک کے صفوں میں پہلے سے موجود اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرنے اور اُنہیں فرنٹ لائن پر لانے کا فیصلہ کرلیا۔

ریاستی اداروں نے ایسے بہت سے کردار بلوچ تحریک میں شامل کرلیئے تھے کہ اُنہیں بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے اور عالمی سطح پر یہ ثابت کیا جا سکے کہ آزادی کی تحریک دم توڑ رہی ہے، پسپا ہورہی ہے اور بیرون ممالک مقیم تحریک سے وابستہ اہم افراد پاکستان کے آئین کو تسلیم کرکے قومی دھارے میں شامل ہورہے ہیں، اس عمل کو پروان چڑھانے کے لئے، بہت سے ایسے خود ساختہ رہنما پیدا کیئے گئے ہیں، جن کا بلوچ سیاست میں کوئی کردار نہیں، نہ ہی یہ بلوچستان میں موجود رہ کر تحریک کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کام سرانجام دے چکے ہیں۔

پاکستان نے بلوچ تحریک کے خلاف پہلا وار جمعہ مری کو اپنے نام نہاد قومی دھارے میں شامل کرکے کیا، جمعہ مری کوئی بلوچ لیڈر یا رہنما نہیں بلکہ پاکستانی اداروں کا لے پالک ہے، جس کا موجودہ جاری تحریک میں کوئی عملی کردار نہیں، جمعہ مری کے والد ہزار خان مری 80 کے دہائی میں پاکستانی اداروں کے ایماء پر نواب خیر بخش مری کے خلاف سازشوں کا جال بچھا کر اندرون خانہ تحریک کو کمزور کرنے اور تحریک میں شامل افراد کو نقصان دینے کے لیئے مختلف سازشیں رچاتے رہے لیکن نواب مری نے ہزار خان کے مذموم ارادوں کو بھانپ کر اُنہیں بلوچ تحریک سے دور کردیا۔ کچھ عرصے بعد آئی ایس آئی نے ہزار خان کا خودساختہ جلاوطنی ختم کرواکر اُنہیں پاکستان لے آیا اور یہاں لاکر اُن کو مری علاقے میں نواب خیر بخش مری کے خلاف استعمال کرتے رہے اور جنرل مشرف نے اپنے دور آمریت میں اُنہیں لیویز کے چند پوسٹ دیکر ایک پرائیویٹ لشکر بنایا اور اُنہیں بلوچ مزاحمت کے خلاف کھڑا کیا گیا۔

جب ہزار خان مری کو پاکستان لایا گیا، تو اُن کا بیٹا جمعہ مری تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے روس چلے گئے، اُن کا بلوچ سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا، نہ ہی وہ کسی سیاسی یا مزاحمتی سرگرمی میں شامل رہے لیکن جب بلوچستان میں مزاحمتی تحریک سر اُٹھانے لگا تو پاکستان نے جمعہ مری جیسے اپنے مہروں کو خاموشی سے تحریک میں شامل کرنے لگا۔ جو بظاہر تحریک میں رہ کر تحریک کو نقصان پہنچاتے رہے، سوشل میڈیا پر تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ اور تحریکی ساتھیوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے اور فیک فیس بک اکاؤنٹس کے ذریعے بلوچ تحریک سے وابستہ رہنماؤں کے کردار کشی میں پیش پیش رہے اور اب ریاست بین الاقوامی سطع پر بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کےلیئے اپنے ایجنٹوں کو ایک ایک کرکے اپنے ساتھ شامل کررہا ہے۔

اس طرح ایک اور مشکوک کردار احمر مستی خان ہے جو امریکہ میں مقیم ہے، جنکا بلوچستان کے سیاست سے کھبی بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے، نہ ہی وہ بلوچستان میں رہ کر سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم رہے ہیں، تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کر بلوچ قوم میں مستی خان نامی کوئی قبیلہ اور خاندان وجود ہی نہیں رکھتا، یہ مستی خان فیمیلی برما کے باشندے اور برمی ہیں، کئی صدیوں پہلے ان کے بزرگ بسلسلہ روزگار برما سے ہجرت کرکے مائی کلاچی آئے تھے، یہاں بلوچوں کیساتھ رہ کر اُنہوں نے بلوچوں کے رسم و رواج، زبان اور طور و طریقے اپنائے اور اپنے آپ کو بلوچ کہلوانے لگے، اس کے علاوہ اس خاندان کا بلوچ معاشرے میں اور کوئی ذکر اور کردار نہیں،احمر خان اپنے آپ کو ہم جنس پرست ظاہر کرتا ہے۔

جب 2000ء کے بعد بلوچ تحریک سر اُٹھانے لگا تو احمر جیسے لوگ بھی تحریک کا آڑ لیکر سیاسی پیدا گیری کا آغاز کرنے لگے، گذشتہ سال آئی ایس آئی نے امریکہ میں ایک تقریب میں احمر مستی کے ذریعے ہلڑ بازی کرواکر ایک تیر سے دو شکار کیئے، ایک احمر مستی خان کے لیئے بلوچ آزادی پسند حلقوں میں اعتماد پیدا کیا گیا، دوسرا نواز شریف کو عالمی سطع پر رسوائی کا سامنا کروایا، پاکستانی آئی ایس آئی اور ایم آئی اپنے ایجنٹوں کو بلوچ آزادی پسندوں کے صفوں میں شامل کرنے کے لیئے ایسے گیم اکثر کھیلتے ہیں، تاکہ لوگ اُن کے ایجنٹوں کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھیں اور اُن پر اعتماد کریں کیونکہ ہمارے تنظیمی ادارے کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے ڈبل ایجنٹ باآسانی ہمارے صفوں میں گھس سکتے ہیں اور قیادت کے درمیان غلط فہمیوں اور بداعتمادی کے زہر گھول دیتے ہیں۔ ایسے افراد تحریک میں نظریاتی و فکری سوچ کیساتھ نہیں بلکہ وہ منافع خوری کے لیئے شامل ہوئے کیونکہ ایسے لوگوں کے لیئے بلوچ قومی تحریک، شہداء اور اسیران کی قربانیاں، بزنس اور منافع خوری کا ذریعہ بن گئے اور وہ تحریک کو اپنے لیئے ذریعہ معاش بنانے کے لیئے استعمال کرنے لگے، پہلے یہ بلوچ قیادت کیساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے لگے اور اُنکا اعتماد حاصل کرکے بلوچ تحریک کے ہمدردوں کیساتھ اپنے تعلقات جوڑنے لگے۔ بیرون ممالک خصوصا خلیج میں مقیم بلوچوں سے بیرون ممالک سیاسی سرگرمیوں اور کام کرنے کے لئے مدد و کمک لیتے رہے۔ بیرون ممالک مقیم بلوچ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ایسے لوگوں کو بھاری رقوم دیتے رہے لیکن یہ کرپٹ اور بدکردار لوگ اُن مخلص بلوچوں کے اعتماد کو بھی ٹھنس پہنچاتے رہے اور بلوچ تحریک کے نام پر ملنے والے رقوم کو اپنے ذاتی عیاشیوں کے نذر کرنے لگے اور عالمی سطع پر بلوچ تحریک کے لئے بدنامی کے باعث بننے رہے۔

ان کی مشکوک سرگرمیوں کو دیکھ کر بلوچ کمیونٹی، بلوچ رہنما اور بلوچ پارٹیاں ان سے اپنے تعلقات منطقع کرچکے ہیں اور بلوچ ہمدرد بھی ان سے ہاتھ کھینچنے لگے کیونکہ یہ لوگ بیک وقت دو کشتیوں کی سوار تھے، ایک طرف بلوچ تحریک میں شامل تھے، تو دوسری جانب آئی ایس آئی کے لیئے کام کررہے تھے، تین چار سال قبل آئی ایس آئی کے نمایندے ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو نے جمعہ مری، احمر مستی خان، ڈاکٹر واحد سے ملاقات کرکے اُنہیں بلوچ قومی تحریک اور بلوچ آزادی پسند قیادت کے خلاف عالمی سطع پر مہم چلانے کے لئے ٹاسک دیا گیا تھا۔ جبکہ ثناء زہری اور کٹھ پتلی صوبائی حکومت میں شامل وزرا کے ذریعے شنید تھی کہ خان قلات نے بھی کسی حد تعلقات استوار اور رابطے بحال کیئے ہیں اور بعض باوثوق ذرائع کے مطابق کابل میں مقیم ایک دانشوری کا دعویدار بھی ریاستی اداروں سے اندرون خانہ تعلقات رکھتا ہے، ریاست اب اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مختلف طریقوں سے بلوچ تحریک پر حملہ آوار ہوچکے ہیں۔ جمعہ مری کو نام نہاد قومی دھارے میں شامل کیا گیا، احمر مستی خان کو سوشل میڈیا پر سرگرم کیا گیا ہے اور وہ آئے روز تحریک اور قیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر بلوچ قوم کو بدظن اور کنفوژن کا شکار بنانے کی کوشش کررہا ہے۔

گذشتہ روز سنتوش کمار کے نام سے ایک جھوٹا آرٹیکل شائع کیا گیا اور اُنھیں را کا ایک سابقہ آفیسر ظاہر کیاُ گیا تھا، جس آرٹیکل میں سوائے سطحی الزامات کے اور کچھ نہیں تھا، اس طرح کی افواہیں ریاستی ادارے گذشتہ کئی دہائیوں سے بلوچ قومی تحریک اور تحریک سے وابستہ رہنماؤں کے خلاف پھیلا رہے ہیں، ریاست آج سے نہیں بلکہ گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ الزامات لگاتے رہا ہیکہ بلوچ تحریک کو انڈیا اور (را) سپورٹ کررہے ہیں، لیکن پاکستان آج تک اپنے اس الزام کو کسی بھی فورم پر ثابت نہیں کرسکا ہے، اب وہ تحریک کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس طرح کا پروپیگنڈہ کروا کر دنیا کو یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کررہا ہیکہ بلوچ تحریک اور بلوچستان میں جاری شورش کو( را ) سپورٹ کررہا، با الفاظ دیگر پاکستان یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ بلوچ بھارت کے پراکسی ہیں تاکہ بین الاقوامی سطع پر بلوچ قوم کے حق میں اُٹھنے والی آوازوں کو دبایا جاسکے اور ہمدردی کو ختم کیاُ جاسکے۔

اب عالمی سطع پر بلوچ قومی تحریک کے خلاف پاکستان اور چین ایک صفحے پر ہیں اور ملکر بلوچ قومی تحریک کے خلاف لابنگ کررہے ہیں، چین اور پاکستان سی پیک کے خلاف عالمی سطع پر ہونے والی منظم فری بلوچستان مہم سے خوفزدہ ہیں، اس لیئے وہ نفسیاتی جنگ اور منفی پروپگنڈوں کا آغاز کرکے یکے بعد دیگرے اپنے ایجنٹوں کو سامنے لارہے ہیں اور اُنکے جھوٹ اور پروپگنڈوں کو سچ کا لبادہ پہنا کر دنیا کو گمراہ کرنے، عالمی سطع پر بلوچ قومی تحریک کی پذیرائی اور سی پیک کے خلاف مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیئے سازشوں کا جال بچھا رہے ہیں، بلوچ قومی قیادت اور پارٹیوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ تحریک کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کے لیئے اپنا کردار اد کریں اور مضبوط و مربوط بنیادوں پر لابنگ و سفارتکاری کے لیئے لائحہ عمل طے کریں۔