بمبور میں شہری آبادیوں پر جارحیت انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے: بی ایس ایف

156

 بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے بیان میں میر عبدالعزیز کردکو قابل تحسین قومی کردارکے حوالہ سے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاہے کہ عبدالعزیز کرد کا انگریزی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد بلوچ قوم کو سامراجی سازشوں کے خلاف منظم و متحرک کرنے کی کوششیں اور تعلیمات قومی اثاثہ ہے بلکہ مشعل راہ بھی ہے 1948سے پہلے بھی بلوچ قوم کے باشعور اور متحرک نوجوان ہر طرح کے مشکلات اور کھٹن حالات کے ساتھ نمٹتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کو اپنے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے جو کردار ادا کیا تاریخ انہیں کھبی فراموش نہیں کریگی.

تر جمان نے کہاکہ 1920میں میر عبدالعزیز کرد نے بلوچ نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لئے ینگ بلوچ کے نام سے ایک پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی بعد میں 1929میں یوسف عزیز مگسی اور ان کے رفقاء کے تشکیل کردہ انجمن اتحاد بلوچان میں باضابطہ شامل ہوگئے اور بلوچ سیاسی مزاج کو براہ راست قومی آزادی کے بنیادی پروگرام سے ہم آہنگ کرنے کے لئے برق رفتاری سے کوششیں کی بعد میں انجمن اتحاد بلوچان کے مرکزی سیکریٹری جنرل کی حیثیت میں قومی آزادی اور متحدہ بلوچستان کی قیام کے لئے اپنے پروگرام کا کھل کے اظہار کیا اور ایک آزاد و خود مختیار بلوچستان ان کی منشور اور مینو فیسٹوکا بنیادی جز قرار پایا اسی تسلسل کو لے کر ایک وسیع و قومی پارٹی کی بنیاد قلات نیشنل پارٹی کے شکل میں منظر عام پر لایا گیا جس سے ان کی جدوجہد کو مزید وسعت اورتقویت ملی عبد العزیز کرد متعدد بار جیل گئے ایک پمفلٹ کی تشہیر کے لئے انہیں انگزیز اور مقامی کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے قید کی سزا سنائی گئی کئی بار وہ منظر عام پر آئے اور متعدد بار انہیں زیر زمین اپنی جدوجہد جاری رکھنے پڑی لیکن انہوں نے تسلسل کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی سفر جاری رکھی .

ترجمان نے کہاکہ ان کی جدوجہد قابل تقلید ہے ہمیں اپنے قومی محسنوں اور ہیروز کو یادکرنا چاہیے وہ امر ہے ان کا کردار ایک یادگار علامت کے طور پر زندہ ہے انہوں نے ایک آزادو خود مختیار بلوچستان کی ترقی و تعمیر اپنی جان مال اورزندگی سے زیادہ مقدم اور معتبر جا نا اورکسی مصلحت اور سمجھوتہ کے بغیر تکالیف اورقربانیوں کا سامنا کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد لڑی انہیں ازیتیوں اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑالیکن وہ ہر زاتی مفاداور مراعات و شہرت کو ٹھوکر مار کر آگے بڑھے اگرچہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی تعلیمات اور افکار ہمارے پاس موجود ہے جنہوں نے ہمیں آزادی کی جدوجہد کاڈھنگ سکھایا اسی تسلسل کو لے کر بلوچ شہداء اور جہد کاروں نے مزید اٖضافوں لائحہ عمل اور حکمت عملیوں سے جدید سائنسی انداز سے ہم آئنگ کیا.

ترجمان نے کہاکہ کوہستان مری اور بمبور میں شہری آبادیون پر جارحیت حملہ انسانی حقوق کی بدتریں خلٖاف ورزی ہے مجموعی طور پر بلوچستان بھر میں ریاستی جارحیت ایک معمول بن چکاہے نہتے عوام کو نشانہ بنانا بوکھلاہٹ ہے ترجمان نے کہاکہ عالمی برادری بلوچ عوام پر ہونے والے ریاستی جارحیت کا نوٹس لیں بلوچستان مین انسانی حقوق کے خلاف ورزیان معمول بن چکی ہے کوہستان مری اور بلوچستان بھر میں جارحانہ کاروائیوں میں شدت لائی جارہی ہے تاکہ بلوچ عوام کو آزادی کے نام لینے سے خوف زدہ کرسکے ترجمان نے کہاکہ اس طرح کے ہتکھنڈوں سے قوموں کے جزبہ اور حوصلہ کمزور نہیں کیا جاسکتا اس سے جدوجہد میں ابال پیدا ہوجاتی ہے تاریخ عالم اس کا شاہد ہے کہ قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوتے ختم وہ قومیں ہوتی ہے جو اپنی شناخت اور آزادی کی اہمیت سے بے پرواہ ہوکر ڈرپوک اور بزدل بن جاتے ہیں جنہیں تاریخ ریڈ انڈین کا نام دیتاہے.

ترجمان نے کہاکہ آزادی کا مطالبہ نوآبادیاتی قوتوں کے لئے ایک تلخ سچائی ہے قومی شعور اور بیداری کے ماحول میں وہ افراتفری اور انتشار پیدا کرنے کے لئے وہ اس طرح کے حربہ استعمال کرتے ہیں لیکن تاریخی جدوجہد تحمل قربانی اور بہادری سے سماج کی تشکیل نو آزادی کی صورت میں سامنے آتی ہے