بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان کے ضلع کیچ کے تحصیل زامران کو ایرانی زیر انتظام بلوچستان کے سرحد سے ملانے والی عبدوئی بارڈر کی مسلسل بندش کو بلوچستان میں ریاستِ کی جانب سے معاشی استحصال قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہے۔
کمیٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 19 مارچ 2025 سے عبدوئی بارڈر بند ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں خاندانوں کا روزگار چھن چکا ہے اور خطے میں معاشی بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مقامی افراد، جن میں مزدور، تاجر اور عام شہری شامل ہیں جن کا واحد زریعہ معاش سرحدی کاروبار ہے شدید بھوک، غربت اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہو چکے ہیں متبادل روزگار کے مواقع نہ ہونے کے سبب یہ بندش انسانی بحران میں تبدیل ہوچکی ہے۔
ریاستی حکام کی جانب سے عبدوئی بارڈر کی بندش کے خلاف سرحدی کاروبار سے منسلک شہریوں کا احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور یہ دھرنا مسلسل دوسرے دن میں داخل ہو چکا ہے، مظاہرین نے پرامن انداز میں احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بارڈر کو فی الفور کھولا جائے تاکہ ان کی معاشی زندگی کو بحال کیا جاسکے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ریاستی اداروں نے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور طاقت کے استعمال کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں اس کے باوجود مظاہرین اپنے مطالبات پر قائم ہیں اور انہوں نے ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک بارڈر کی بندش نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کو معاشی دباؤ کے ذریعے قابو میں رکھنے کی ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے پہلے ہی کرپشن اور پسماندگی کے شکار اس خطے میں بارڈر کی بندش نے عوامی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔
بیان کے آخر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست فوری طور پر عبدوئی بارڈر کو کھولے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو بند کرے اور بلوچستان کے عوام کے معاشی و انسانی حقوق کا احترام کرے بصورتِ دیگر ریاستی پالیسیوں کے خلاف عوامی غصہ اور مزاحمت میں مزید شدت آئے گی۔