ہم نے بلوچستان دیکھا ہے
تحریر: مہران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آپ نے بوسنیا، شام، فلسطین پڑھا ہوگا، ہم نے بلوچستان دیکھا ہے۔” یہ الفاظ دو سال قبل حسیبہ قمبرانی نے اسلام آباد میں اپنے بھائی اور کزن کی جبری گمشدگی کے خلاف دھرنے کے دوران کہے تھے۔ یہ جملہ محض ایک اظہار نہیں بلکہ ایک حقیقت کی عکاسی ہے، جو بلوچستان میں ریاستی مظالم کی گہرائی کو آشکار کرتا ہے۔ بوسنیا، شام، اور فلسطین میں جہاں بیرونی قوتیں انسانیت کو روند رہی ہیں، وہیں بلوچستان میں یہی کردار ریاستی ادارے ادا کر رہے ہیں۔ وہاں یہ ظلم سامراجی طاقتوں کی استعماری خواہشات کے تحت جاری ہے، جب کہ بلوچستان میں یہی ظلم ریاست کے قبضے اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان میں جبری گمشدگی کا مسئلہ ایک اجتماعی المیہ بن چکا ہے۔ ایک فرد کا لاپتہ ہونا صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے خاندان کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے انتظار میں زندگی کے دن گن رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کے دل کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کئی لاپتہ افراد اپنے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں، اور ان کے غائب ہونے سے پورا خاندان بے یار و مددگار ہو جاتا ہے۔ بعض والدین کے لیے ان کا اکلوتا سہارا چھن جاتا ہے، اور کئی بچے اپنے والد کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ اذیت صرف افراد یا خاندانوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے معاشرے کو اجتماعی کرب میں مبتلا کر دیتی ہے۔
حسیبہ قمبرانی کا خاندان اس درد کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کے ایک بھائی اور کزن پہلے ہی ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے، ٹارچر سیلز میں اذیت سہہ کر شہید کر دیے گئے۔ اس کے بعد ایک اور بھائی اور کزن کو ایک سال کے لیے لاپتہ کیا گیا۔ حسیبہ نے اس ایک سال کے دوران اپنا گھر چھوڑ کر پریس کلبز اور ریاستی اداروں کے دروازوں پر فریاد کی۔ ہر ممکن طریقے سے اپنے پیاروں کی بازیابی کی کوشش کی اور کامیاب ہوئیں۔ لیکن یہ سکون زیادہ دیر نہ چل سکا۔ دو سال بعد پھر اسی خاندان کے دو اور افراد کو لاپتہ کر دیا گیا۔ ایک بار پھر حسیبہ اپنے بھائیوں کی تصویریں لے کر احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کی کہانی محض ایک فرد یا خاندان کی کہانی نہیں بلکہ بلوچستان کے ہر گھر کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں مائیں، بہنیں، اور بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کی امید میں تڑپ رہے ہیں۔
جبری گمشدگی نہ صرف پاکستانی آئین کے مطابق ایک جرم ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود ریاستی ادارے، خصوصاً فوج اور خفیہ ایجنسیاں، اس ظلم میں ملوث ہیں۔ روزانہ درجنوں نوجوانوں کو اٹھایا جاتا ہے، انہیں اذیت کے گہرے اندھیروں میں دھکیلا جاتا ہے، اور ان کے خاندانوں کو مسلسل کرب و اذیت میں مبتلا رکھا جاتا ہے۔ یہ سب طاقت کے نشے اور بلوچ عوام کو ان کی شناخت اور حقوق سے محروم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
بلوچ عوام کا ایمان ہے کہ ان مظالم اور قربانیوں کا نتیجہ ضائع نہیں جائے گا۔ ان کے شہدا کا خون ان کے حقوق، آزادی، اور خوشحالی کا راستہ ہموار کرے گا۔ یہ جدوجہد ان کی قومی شناخت کے تحفظ اور اپنے وسائل پر اختیار کی بحالی کی ضمانت بنے گی۔ ظلم کی یہ رات طویل ہو سکتی ہے، لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔
ہم تمام گمشدہ افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کو ختم کرنا اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرنا عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
بلوچستان کی آواز آج دنیا کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ان مظالم کو روکا جائے، کیونکہ کسی قوم کو اس قدر اذیت سہنے پر مجبور کرنا انسانیت کے خلاف سب سے بڑا جرم ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔