لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

33

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہرتالی کیمپ کو 4647 دن ہوگئے۔ منگچرسےسیاسی سماجی کارکنان برکت حسین بلوچ، محمدعثمان بلوچ، نورمحمد بلوچ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماماقدیر بلوچ نے مخاطب ہوکر کہاکہ بلوچستان میں پچھترسالوں سے جاری انسانی حقوق کی پامالیوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہیں۔ بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرکے ان پر انسانيت سوز تشدد کے بعد ماورائے عدالت قتل عام روزکامعمول بن چکاہے۔ نوجوان بزرگ خواتين بچے ہرطبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی زندگی طاقت کے بےدریغ استعمال کی وجہ سے اجیرن بن چکی ہے طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے کئی خاندان اپنے ذرائع معاش مال مویشی سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں۔ کئی خاندان اپنے پیاروں کی سلامتی کے لیے اور اپنے ننگ ناموس چادر چاردیواری کی تقدس کی خاطر نقل مکانی پر مجبور کئے جاچکے ہیں بلوچستان میں بلوچوں کو جبری اغواء اور ان کے ماورائے عدالت قتل عام میں شدت 2002 کے اوائل میں لائی گئی۔ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کی تعداد 80.000 سے تجاوز کرچکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمد گی انسانی حقوق کی شدید ترین پامالیوں کا مظہر ہے جن سے کسی صورت صورت انکار نہیں کیاجاسکتا۔

ماماقدیر بلوچ نے کہاکہ اکثر لاشوں کی برآمدگی اور ان کو ڈی این اے کے بغیر لاوارث سمجھ کر دفنانا سمجھ سے بالاتر ہے جو حکومت بلوچستان کی جبری لاپتہ بلوچ افراد کے معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنے اور ایسے واقعات میں ملوث افراد اور اداروں کو بری الذمہ قرار دینے کی دانستہ کوشش ہے اور ہم اس جرم میں حکومت بلوچستان سی ٹی ڈی ایف سی کو شریک قرار دیتے ہیں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور اجتماعی قبروں کی برآمدگی کے واقعات بلوچستان میں نئے نہیں ہیں اسے پہلے بھی توتک پنجگور ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے جنگ سے متاثرہ علاقوں میں اجتماعی قبریں دریافت کرچکی ہے جو لاپتہ افراد کی تھیں اور آج بھی برآمد ہونے والی لاشوں کا تعلق بلوچستان کے جبری لاپتہ افراد سے ہیں۔