بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے مختلف کارروائیوں کے دوران مزید 6 افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا ہے، جس کے بعد رواں ماہ جبری گمشدگیوں کی تعداد 33 تک پہنچ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق مشکے کے علاقے نوکجو سے 11 نومبر کو پاکستانی فورسز نے سمیر ولد فقیر اور مسلم ولد جمعہ کو حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ دونوں افراد کے بارے میں لواحقین کو تاحال کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے۔
ضلع کیچ سے ملنے والے اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے کیچ بلیدہ سے دو نوجوان وہاب ولد سخی داد اور سمیر ولد سخی داد کو شکار کے دوران حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ نوجوان نزدیکی علاقے میتاپ میں شکار کے لیے گئے تھے، جہاں فورسز نے انہیں گرفتار کر کے کیمپ منتقل کردیا ہے جس کے بعد سے بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔
بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب کے زیر انتظام بلوچ علاقے ڈیرہ غازی خان سے بھی جبری گمشدگیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، ذرائع کے مطابق پاکستانی فورسز نے اعظم جان مری اور نبی لال ولد قیصر مری کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کر دیا۔
زرائع کے مطابق نبی لال کے والد قیصر مری کو 2012 میں فورسز نے قتل کر دیا تھا، اور اب ان کے بیٹے کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دریں اثنا، کیچ کے علاقے دشت سے گذشتہ روز پاکستان فورسز کی جانب سے حراست میں لیے گئے ڈاکٹر لیاقت کو فورسز نے رہا کردیا ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں نومبر کے مہینے میں بھی شدت برقرار ہے۔ مختلف اضلاع سے اب تک 33 افراد کے جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تفصیلات جمع کرنے والے والی تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اس سے قبل گذشتہ ماہ اکتوبر میں 127 افراد کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے چند بازیاب ہوئے لیکن متعدد تاحال لاپتہ ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ان سنگین جرائم کے خلاف فوری اور مؤثر کارروائی کریں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، اور بلوچ عوام کو ریاستی جبر اور نسل کشی کا سامنا ہے۔ تنظیم نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی خاندان یا گھرانہ نہیں جو اس ریاستی جبر سے متاثر نہ ہوا ہو۔