گوادر ترقی کی حقیقت، ماحولیاتی تباہی و قومی یکجہتی کے موضوع پر تقریب کا انعقاد

255

گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام آگاہی مہم کے سلسلے میں تقریب کا انعقاد کیا گیا-

گوادر تقریب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا جس میں گوادر سے سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سمیت خواتین و مرد شہری بڑی تعداد میں تقریب میں شریک ہوئے-

تقریب کا آغاز بلوچ قومی ترانے کے ساتھ کیا گیا جہاں تقریب کے شروع میں پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان گوادر کہاں کھڑا ہے اور گوادر میں عالمی سرمایہ کاری، ترقی کے حقائق اور ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے مقررین نے تفصیلی بحث کرتے ہوئے شہریوں کے سامنے حقائق پیش کئے-

پینل ڈسکیشن میں ماحولیاتی مسائل کے تعارف کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کے بی فراق بلوچ کا کہنا تھا میڈیا میں گوادر حوالے سے بنائی گئی تصویر مکمل طور پر من گھڑت اور اصل حقیقت سے لاتعلق ہے اور ترقی کے نام پر گوادر میں جو دعوے کئے جارہے ہیں دراصل یہ ترقی نوآباد کے مفادات کی تحفظ کے لئے بنائی انفراسٹرکچر ہیں جو حالیہ گوادر کے سیلاب کی سبب بنیں-

گوادر میں حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والے سیلابی صورتحال اور مقامی لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑے جانے پر مقررین نے مقامی افراد کو آگاہ کیا-

پینل ڈسکیشن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کے فراق کا کہنا تھا گوادر میں حالیہ سیلاب کی وجوہات انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبے ہیں ان ترقیاتی منصوبوں میں تشخیص اور مقامی حکمت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا مقصد لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کرنا ہے ان کا مقصد اس شہر کو خالی کرنا اور گوادر کے مقامی لوگوں کی قیمت پر غیر ملکیوں کو لگانا ہے میگا پراجیکٹس کو گوادر کے عوام کی بڑی تباہی قرار دیا۔

انہوں نے کہا آج کے گوادر میں ریاست نے گوادر کے لوگوں اور زمین کو لوٹنے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے سخت گیر گروہ تعینات کر رکھا ہے گوادر کے لوگ بھی آئرلینڈ کے لوگوں کی طرح سمندر کے بغیر نہیں رہ سکتے مچھلیوں کی طرح، جب وہ سمندر سے باہر ہوں گے تو مر جائیں گے، جب ان کی زمین تباہ ہو جائے گی، وہ مر جائیں گے۔

اس دؤران کراچی کے مقامی لوگوں اور گوادر کے لوگوں کے زمینی حالات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایک اور پینسلٹ حفیظ بلوچ نے کراچی کی قدیم تاریخ کے بارے میں بحث کرتے ہوئے کہا کراچی کا تاریخی نام “مائی کلانچی” ہے حمل جیئند بلوچ کے دور میں لوگ اس خطے میں آباد رہے ہیں پاکستان کی تقسیم اور قیام کے بعد کراچی کے مقامی بلوچ عوام کو اپنا علاقہ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ملیر جو کہ بلوچ عوام کا تاریخی ورثہ رہا ہے، اب میگا سٹی میں تبدیل ہو رہا ہے، میگا پراجیکٹس قائم کر کے مقامی طرز زندگی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

گوادر سمیت دیگر بلوچ رہائشی علاقوں میں ریاستی میگاپروجیکٹس پر ریاستی نقطہ نظر بلوچ قومی سرزمین و شناخت کا استحصال سمیت دیگر موضوعات پر بھی روشنی ڈالی گئی-

انہوں نے کہا ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شامل کیے بغیر ترقی ناممکن ہے اور استحصال ہے ایسے جبر کا مقابلہ کرنا تمام مقامی لوگوں کا فرض اور فرض ہے ترقی اور Ecocide کے درمیان تعلق کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے اس نام نہاد ترقی کو نسل کشی کی ایک شکل قرار دیا۔

اس دؤران خاتون طالب علم سعدیہ بلوچ سے بلوچستان میں سیلاب کی وجوہات اور بلوچ عوام پر اس کے تباہ کن اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ گوادر اور دیگر دیہی علاقوں جیسے جھل مگسی، نصیر آباد میں سیلاب کی وجوہات ایک جیسی ہیں۔

آگاہی مہم کے آخر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء ماہ رنگ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا نواباد ریاست مقامی افراد کو صرف بندوق سے قتل نہیں کرتا بلکے اسکی نسل کشی مقامی افراد کو اسکی زمین سے بے دخل کرنے کے لئے مختلف طریقہ آزماتا ہے جو ہم آج گوادر کے صورت میں دیکھ رہے ہیں جہاں مقامی آبادی پانی میں ڈوب چکا ہے جبکہ ایک طرف ریاست کا بنایا گیا گوادر مکمل اس سے لاتعلق ہے-

ماہ رنگ بلوچ نے کہا ریاست کی جانب سے بلوچ نسل کشی مختلف شکلوں میں جاری ہے جس کے حوالے سے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا تاکہ بلوچ کو بتایا جاسکے کے ریاست چاہئے جتنی بھی آپ کی استحصال کرے لیکن پورا بلوچستان آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور بلوچ یکجہتی کی صورت میں ہم اس ظالم نظام کے خلاف اپنے لوگوں کو بحالی اور آزادی سے جینے کا حق چھین کر لینگے-