زندان . دلشاد بلوچ

309

زندان

تحریر: دلشاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زندان ایک ایسا لفظ جو میں روز مرہ کی زندگی میں اکثر سنتا مگر صرف سوشل میڈیا تک ، زندانوں کے بارے میں اکثر ماں بہنوں کو سوشل میڈیا میں چیختے روتے گڑگڑاتے ہوئے دیکھتا کسی بہن کا بھائی کسی ماں کا بیٹا کسی بہن کا والد کسی ماں کا شوہر جو ریاست کے جبر کا شکار ہوا کرتے تھے مگر میرے لئے یہ سب کچھ ایسا تھا جیسے کچھ تھا ہی نہیں میں اکثر سوشل میڈیا میں چیختے روتے ماں بہنوں کو دیکھتا اور دل ہی دل میں کہتا یہ سب تو روز کا مامحول ہے اور پھر میں اپنے ہاتھ کو موبائل کے اسکرین کی طرف بڑھتا اور  بڑھتا ہی جاتا جب موبائل بند کرتا تو اپنی روز مرا کی کاموں میں لگ جاتا جب  کام سے فارغ ہوجاتا تو رات کو تھوڑا سوشل میڈیا دیکھتا سوشل میڈیا دیکھنے کے بعد فلم دیکھ کر بارہ یا ایک بجے تک نیند کی آند لینے لگتا ، نیند سے جاگنے کے بعد میں اپنی روز کے روٹین میں پھر لگ جاتا صبح صبح چائے کی چسکیاں کچھ دير تک سوشل میڈیا ، پهر اپنا گھر چلانے کے لئے کام کو جاتا ، میرے لئے لفظ زندان پہلے نیا تھا بعد میں روز سوشل میڈیا دیکھنے کے بعد لفظ زندان صرف ایک لفظ تک ہى محدود بن گيا تھا میں اس بات سے بلکل بےفکر تھا جو زندان میرے لئے صرف ایک لفظ ہے آگے چل کر وہی لفظ میری زندگی کا بھی حصہ بن جائے گا ۔

روز کی روٹین کی طرح میں کام سے فارغ ہو کر رات بارہ یا ایک بجے تک فلم دیکھ کر سکون سے سو رہا تھا اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے سر کو زور سے ہاتھ لگا کر مجھے نیند سے اٹھا رہا ہے جب میں سخت نیند سے بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد اسلحہ سے لیس ماسک پہننے ہوئے پندرہ سے بیس لوگوں نے مجھے گھیر لیا ہوا ہے اور ایک شخص نے مجھ سے کہا اٹھو جب میں اٹھ گیا تو ان لوگوں کے ساتھ ایک مخبر بھی تھا جس نے اپنا چہرہ اور سر پورا ایک بلوچی چادر سے ڈکا ہوا تھا جب مخبر میرے قریب پونچھا تو مخبر نے ایک تیز لائٹ میرے چہرے کی جانب کردیا پھر مخبر نے اسی لائٹ کو میرے چہرے پر دو بار اوپر نیچے کیا  تو مجھے باقی ہتھیار بند شخصوں نے کہا چلو تم سے کچھ پوچھ تاچھ کرنا ہے یہ وقت تقریباً صبح کے چار یا پانچ بجے کا تھا جب مجھے گھر سے نکلا جارہا تھا تو میری ماں جاگ رہی تھی اور بار بار  ان لوگوں سے روتا ہوا یہ کہہ رہا تھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرے بیٹے کو کہاں لے جارہے ہو ایک ماسک پوش شخص نے میری ماں کو دکھا دے کر کہا سائیڈ ہوجاؤ ہم صرف آپ کے بیٹے سے کچھ پوچھ تاچھ کرنا چاہتے ہیں پھر ایک شخص نے میرے گردن کو زمین کی جانب کیا ایک شخص نے میرے ہاتھوں کو پیچھے سے باندھ کر کہا چلو جب میں چلنے لگا میرے گردن کو ایک شخص نے زور سے پکڑ کر کہا اوپر مت دیکھو گھر سے کچھ دور فاصلے پر پیدل چل کر ان کی تقریباً پندرہ سے بیس گاڑیاں کھڑی ہوئی تھی مجھے ایک وی گو گاڑی میں بٹھا کر میری آنکھوں کو ایک سياه پٹی سے بند کر دیا تقریباً دس منٹ تک گاڑی چلنے کے بعد مجھے ایک بڑے ایف سی کیمپ کے اندر منتقل کردیا گیا۔

جب مجھے گاڑی سے اتارا تب مجھے کہا گھٹنوں پر بیٹھ جاؤ جب میں گھٹنوں پر بیٹھ گیا تو پانچ سے چھ اہلکار میرے پیٹھ پر لاتے برسانے لگے اور زور زور سے گاليا دينے لگے بار بار لاتے لگنے سے میرا سر زمین سے ٹکرانے لگا اسی دوران میرے آنکھوں کی پٹی بھی کھل گئی جب میری آنکھوں کی پٹی کھل گئی تب میں نے دیکھا کہ میں ایک ایف سی کیمپ کے اندر ہوں اس کیمپ میں کچھ درخت اور کچھ ایف سی اہلکار تخت پر بیٹھ کر صبح کی چائے پی رہے تھے پھر ایک  افسر نے مجھے گالی دیں کر اپنے سپاہیوں سے کہا لے جا کر اسے بند کر دو سپاہیوں نے مجھے گردن سے پکڑ کر آنکھوں میں پٹی باندھ کر مجھے گھسٹتے ہوئے ایک زندان میں لات مار کر پھنک دیا میری آنکھیں بند تھی تو مجھے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ اب مجھے کس طرح کی جگہ میں بند کیا ہوا ہے تین چار گھنٹے گزرنے کے بعد پھر سے وہ اہلکار آئے اور مجھے ایک دوسرے کمرے میں لے گئے اس کمرے میں پنکھا بھی چل رہا تھا مجھے ایک شخص نے میرا نام لے کر کہا کیسے ہو میں نے کہا ٹھیک ہوں پھر مجھ سے سوال کرنے لگے بتاؤ تم کس تنظیم سے ہو میں نے کہا سر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے مجھے اپنا گھر چلانے کے لے فرصت نہیں ملتا میں تنظیم میں کیسے جاسکتا ہوں جب میں نے یہ بات کی تو سائیڈ سے ایک اور شخص نے ایک ربڑ والی پائپ سے میرے سر پر زور سے وار کیا وار اتنا زور سے کیا کہ میرا سر پھٹنے لگا پھر مجھ سے کہا اب اگر تم سچ نہیں بتاو گے تو  ہر بار اسی طرح تم مار کھاتے رہو گے پھر وہ مجھ سے بار بار یہی سوال کرتے اور مارتے میرا جواب بار بار ایک ہی تھا پھر افسر نے کہا اسے جاکر ابھی بند کردو بعد میں دیکھتے ہیں مجھے پھر اسی زندان میں بند کرکے میری آنکھیں اور ہاتھ کھول دیے جب میری آنکھیں کھل گئی تب میں نے دیکھا ایک چھوٹی سى چار دیواری جہاں پر صرف ایک شخص سو سکتا ہے مگر پہروں کو مکمل سیدھا کر نہیں سکتا ایک کچا فرش جہاں مٹی اور خون کے دھبے سے بھرا ہوا تھا ایک لیٹرین جو صرف دو بلاکس تک محدود تھا زندان کے چاروں طرف خون کے دھبے اور بلوچی میں کچھ شاعری تھے جو کچھ حد تک مٹا دیے گئے تھے زندان میں کوئی لائٹس کی روشنی نہیں تھی روشنی کے لئے ديوار میں صرف ایک چھوٹی سى سراخ تھی میرے اردگرد ایسے کمرے بہت تھے جہاں پر مجھ جسے اور بھی لوگ تھے جن کی آوازیں میرے کانوں تک آتی رہتی تھی۔

اب تقریباً دن کے دو یا تین بجے کا وقت تھا ایک اہلکار نے میرے لئے کھانا لایا ایک روٹی ایک پلیٹ میں تھوڑی دال جو کسی نے کھا کر پھر مجھے سونپ دئیے گئے تھے میں نے وه روٹی صرف آدھی کھا کر آدھی روٹی واپس ٱس اہلکار کو تھما دیا پھر وہ اہلکار روٹی لے کر واپس چلاگیا میں زندہ میں بیٹھے بیٹھے سو گیا تقریباً میری آنکھ دو یا تین گھنٹے بعد کھل گئی تھی تب تک میری جانب کوئی نہیں آیا تھا میں نے پھر سونے کی کوشش کى لیکن اب مجھے نیند نہیں آرہی تھی پھر تقریباً تین یا چار گھنٹے گزرنے کے بعد کچھ لوگوں کی آوازیں جو میری جانب سنائی دینے لگ رہی تھی پھر ایک سیل سے ایک شخص کو مارنے کی آوازیں آرہی تھی ایک یا دو گھنٹے اس شخص کو ٹارچر کرنے کے بعد پھر میرے سیل کی دروازے کو کھول کر چار اہلکار میرے پاس پہنچے جہنوں نے ماسک سے اپنے منہ ڈھکے ہوئے تھے میرے ہاتھوں کو پیچھے باندھ کر آنکھوں کو پٹی باندھ کر پھر وہ اہلکار مجھے مارنے لگ گئے وہ جو پوچھ رہے تھے میں ہر بار کہتا مجھے کچھ نہیں پتا یہ ٹارچر کا سلسلہ دس دن تک اسی طرح چلتا رہا پھر مجھے دو دن تک سونے نہیں دیا جب میں نے ہر چیز سے انکار کیا تو مجھے پیار سے سمجھانے لگے بیٹا بیٹا کہہ کر کہنے لگے آپ ہمارے بیٹھے جیسے ہو بتاؤ آپ کس تنظیم سے ہو اگر آپ بتا دے تو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آپ کو ابھی چھوڑ دے گے مگر میرا جواب وہی تھا جو پہلے تھا کہ میرا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں پھر مجھے کہا ٹھیک ہے تم ابھی اسی جگہ سڑتے رہو گے پھر مجھے زندان میں بند کرکے چھوڑ دیا۔

ہر دن دو ٹائم کھانا ایک لیٹر بوتل پانی کا ملتا  اب  مجھ سے کوئی سوال جواب نہیں کررہا تھا اور نہ ہی کوئی مجھے مارنے کو آتا اسی طرح اب چوبیس گھنٹے میرے زندان میں خاموشی سے گزر رہے تھے کچھ دن اسی طرح خاموشی سے میرے گزرنے لگے تو خاموشی مجھ پر حاوی ہونے لگی میں بار بار یہ سوچنے لگا میرے سب رشتے دار  سڑک پر نکل کر سڑک کو مکمل طور پر بند کردیں اور ریاست سے میری بازیابی کی اپیل کریں مگر یہ صرف میں سوچ رہا تھا کیونکہ میں زندان میں تھا کبھی میں اس سوچ میں لگتا مجھے تو کچھ دن ہوئے ہیں میں اس زندان کی خاموشی سے بیزار ہورہا ہوں۔ ٱن لوگوں کا کیا حال ہوا ہوگا جو ریاست کے زندانوں میں دس دس سالوں سے قید ہیں جن کے خاندان والے سڑکوں پر ریاست کے ہاتھوں اذیتیں سہ رہے ہیں ، اسی طرح میں ہر وقت سوچتا رہتا  کبھی کچھ بھی سوچ نہیں پاتا کبھی خاموشی سے بیزار ہوکر چیخنے کو دل کرتا مگر چیخ بھی نہیں پاتا ایسا لگ رہا تھا زیادہ خاموشی سے میرا دماغ پھٹ جائے گا میں زندان  میں خدا سے بار بار ایک ہی دعا کررہا تھا یا تو یہ لوگ مجھے جلدی گولی مار کر میری لاش کو کہیں پھنک دیں یا مجھے اس زندان سے آزادی دلا دیں ایک دن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دو ااہلکار آئے اور مجھ سے کہا چلو مجھے لگا اب مجھے گولی مار دیں گے  پھر مجھے ایک گاڑی میں بیٹھا دیا کچھ ٹائم گاڑى چلنے کے بعد مجھے ایک اور جگہ شفٹ کردیا جہاں بہت سارى گاڑیوں کى آوازیں آرہی تھىم۔ بہت سے لوگوں کى  باتیں بھی آرہی تھیں میری آنکھیں بند تھیں تو میں کچھ دیکھ نہیں پا رہا تھا مگر مجھے محسوس ہوا کہ میں اب پولیس کے ہاتھوں میں ہوں تین چار گھنٹے میری آنکھیں بند تھیں اسی دوران دو پولیس والے مجھے مارنے لگے بتاؤ تمہارا کس تنظیم سے تعلق ہے میرا جواب وہی تھا جو پہلے تھا پھر میری آنکھیں کھول دی گئیں جب میری آنکھیں کھول دی گئیں تب میں نے دیکھا میرے سامنے پولیس والے بیٹھے ہوئے تھے جو سی ٹى ڈی والے تھے سی ٹی ڈی والوں نے مجھے سنٹرل جیل منتقل کردیا جب میں سنٹرل جیل منتقل ہوا تو مجھے لگا میں دوزخ سے جنت میں داخل ہوا ہوں  کچھ مہینے جیل کاٹنے کے بعد میں رہا ہوگیا جب میں رہا ہوگیا تب مجھے احساس ہوا کہ زندان میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔