باڑ کے اس پار گوادر ۔ سمیرا بلوچ

478

باڑ کے اس پار گوادر

تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

آج بابا مری کی ایک بات شدت سے یاد آرہی ہے، جب ان سے ایک صحافی نے یہ سوال پوچھا تھا، آپ اپنی آزادی کے اس جدوجہد کے کس پڑاؤ میں خود کو کامیابی سے ہمکنار سمجھنا شروع کریں گے؟

بابا مری کا مختصر سے جواب تھا ، کہ جب ہمارے دشمن کے دل میں ہمارا خوف بیٹھ جاۓ، وہیں سے ہماری جیت کی منزل شروع ہو جاۓ گی۔

ریاست پاکستان کی جانب سے گودار کے گرد باڑ لگانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ شاید دشمن کے اسی ڈر اور خوف کا بابا مری نے کہا تھا، جو آج ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیا سامراجی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ گوادر کے گرد باڑ لگا کر وہ خود کو محفوظ کر پاۓ گا؟ یقینا نہیں۔

لیکن دشمن کے دل میں بلوچ نرمرزاروں کا خوف سرایت کر چکا ہے۔ بیشک آزادی کے حصول میں یہ بہت ہی چھوٹا قدم ہو گا ، لیکن شروعات تو ہو چکی ہے۔ دشمن کو اپنی شکست نظر آ رہی ہے۔ جو وہ خود کو بچانے کی ایک ناکام کوشش کر رہی ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں، کہ پاکستان کی ریاست بلوچستان میں اس طرز کا کوئی کام کر رہا ہے۔ بلوچستان ، پاکستان کی کالونی ہے۔ اس بات کا ادراک تو کوئی غیر وطن کو بلوچستان میں داخل ہوتے ہوۓ ہی ہو جاۓگا۔ بلوچستان کو ناصرف بیرونی ممالک کے لوگوں کےلیے، بلکہ خود پاکستان کے صحافیوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو آنے کی اجازت نہیں ہے، تو کوئی غیر ملکی کا یہاں بلوچستان آنا ، نا ممکنات میں سے ہے۔

بلوچستان کے ہر شہر یا کسی بھی دوسرے حصے میں جانے کے لیے خود بلوچوں کو اپنی جھوٹی پاکستانی شناخت کو ریاست کے نام نہاد محافظوں کو دکا کر انھیں جھوٹی تسلی دی جاتی ہے، ہاں بھائی ہم پاکستانی ہیں۔ اس طرز کا رشتہ ہے، بلوچ اور پاکستان کا۔

صرف گوادر ہی نہیں ، پورے بلوچستان کی سرزمین پاکستان کے لگاۓ ہوۓ باڑ میں قید ہے، اور ہمارے نوجوان پاکستانی عقوبت خانوں میں قید ہیں۔ یہ رشتہ ہے بلوچ اور پاکستان کا۔

ایسا رشتہ رکھنے کے بعد پاکستان کہتا ہے، کہ بلوچ بھارت کے بہکاوۓ میں آ کر گمراہ ہوگئے ہیں،درحقیت بلوچ تمھارے مظالم سے تنگ آ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اور اب یہ جنگ اس نہج پر پہنچ چکی ہے ، جہاں سے واپسی کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس جنگ کو بلوچ نوجوان اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے دے کر لڑ رہے ہیں ۔ آج اگر دشمن خود کو اپنے قلعے نما اورناقابل تسخیر والے بیرکوں میں محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں، تو انہی جانبازوں کی بہادری اور وطن سے محبت کے لیے عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے.

آزادی تحفے کے طور پر نہیں دی جا سکتی ہے: ‘ نہ تو اکیلا شخص اپنے آپکو آزاد کراسکتا ہے ، نہ ہی وہ دوسروں کو آزاد کر سکتا ہے۔ بلکہ باہمی رفاقت میں ہی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔’ اسکے علاوہ آزادی تحفے کے طور پر نہیں ملتی ہے بلکہ ہیگل کے الفاظ میں اسے تو صرف زندگی کو داؤ پر لگا کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔۔ ( کتاب مظلوموں کی ترقی سے اقتباس)

آخر میں ان بلوچ دانشوروں سےمخاطب ہونا چاہتی ہوں، جو باہر بیٹھ کر بلوچ فدائین کے عظیم قربانیوں کے فلسفے پر سوال اٹھا رہے ہیں ، تو انکے لیے یہی کہوں گی ، کہ اگر آج گودار کے گرد دشمن باڑ لگانے پر مجبور ہو گیا ہے، وہ انہی عظیم شیروں کی بہادری اور انکی وطن کے لیے قربانیوں کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ہے۔ دشمن پورے بلوچستان کو بھی باڑ لگا دے اپنے تحفظ کے لیے ، وہ پھر بھی ان فدائین سے شکست کھاۓ گا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔