م سے س تک – دیدگ بلوچ

542

م سے س تک

تحریر: دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خونی رشتے بھی کتنے مقدس رشتے ہوتے ہیں جب تک بندہ ساتھ ہے انہیں پتا ہی نہیں چلتا لیکن جب انسان اپنے خاندان والوں سے دور ہو اور اپنوں کو تکلیف میں مبتلا دیکھے تو ایک شعور سے لیس جہدکار کو جس کے حوصلے چلتن سے بھی بلند ہو آنسو ٹپکانے پہ مجبور کردیتی ہے۔

آج میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جیسے ہی گشت سے واپس کیمپ پہنچا تو میں زگرین کو کیمپ میں نہ پایا ۔۔۔۔۔ وہی زگرین جو ہمیشہ میرے پہچنے کا انتظار کرتا ، وہی زگرین جو ہمیشہ ہمارے لیۓ پریشان رہتا، وہی زگرین جو ہمارے گشت کے بارے میں ہم سے تفصیلی جواب طلب کرتا ، گھنٹوں ہم سے بحث کرتا ۔۔۔ہماری خوبیوں کا سن کے بے ساختہ کہتا “اڑے قربان نمکن ۔۔۔۔اڑے قربان ۔۔۔۔اڑے قربان اور جب ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوتی تو ہم سب کو ایک گول دائرے میں بٹھا کے ایک شفیق بھائی کی طرح سمجھانے کی کوشش کرتا ۔۔۔سنگت کنے نما ناکامی نا افسوس اف مگہ کسس ئے نا نما جان نقصان مسہ کہ گڑا ئی مونا امر کریٹہ ۔۔۔۔ کل آن اول کنے نما جان انا فکرے آئندہ دنو غلطی کپہ بو ۔

“سنگت مجھے آپ لوگوں کی ناکامی پہ افسوس نہیں ، مگر آپ لوگوں میں سے کسی کی جان کو نقصان پہنچتا تو میں کیا کرتا ۔۔۔سب سے زیادہ مجھے آپ لوگوں کی جان کی فکر ہے آئندہ ایسی غلطی مت کرنا”

لیکن آج میری آنکھیں زگرین کو دیکھنے کے لیے بےتاب تھیں نہ جانے وہ کہاں ہے ۔۔۔سنگت وسیم جو صبح سے ہی کیمپ میں موجود تھا اس سے پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ پچھلے دو گھنٹوں سے قریبی ٹیلے پہ بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔سنگت مہران کو چائے بنانے کا کہہ کر میں قریبی ٹیلے پر پہنچا تو سنگت زگرین بریٹا اور آر پی جی 7 گود میں رکھے ایسے بیٹھے تھے جیسے گول دائرے میں دوستوں کو بٹھا کے ان سے کسی مشن کے حوالے سے مشورے لے رہا ہو لیکن یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا ، سنگت زگرین تو تنہا بیٹھے قریبی پہاڑ کے کالی چٹان سے خود کلامی کررہا تھا ۔ میں جیسے ہی اس کے قریب پہنچا اس کی یہ حالت اپنے آنکھوں سے دیکھا تو دل ہی میں سوچا کہ واپس مڑو پھر دل ہی دل میں خیال آیا کہ شاید سنگت کو اس وقت میری ہی ضرورت ہو تو میں نے اپنے بے جان پاٶں پہ زور دیتے ہوئے قدموں کو آگے بڑھانے لگا تو سنگت مجھے دیکھ کر یوں حیران ہوئے جیسے مجھے پہلی بار دیکھ رہا ہو ….. سنگت کیا ہوا ہے ………. ؟ تجھے یوں پریشان دیکھ کر میں بھی پریشان ہوں …… اکثر میڈیا پہ خبر یں چلنے لگتا کہ فلاں جگہ پہ بلوچ عسکریت پسندوں اور فوج کے درمیان ایک طویل جھڑپ ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اتنے بلوچ عسکریت پسند مارے گئے ہیں ۔۔۔ایسے خبریں سننے کے بعد اکثر کمانڈر زگرین یوں ہی کسی گَہری سوچ میں ڈوب جاتا اور پورا دن اُداس گزارتا ……. لیکن آج تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا …..تمام سنگت سلامت تھے …. پھر ایسا کیا تھا کہ آج کمانڈر اتنا افسردہ ہے …… سلام سنگت …. زگرین کے قریب پہنچتے ہی میں نے بلند آواز میں کہا …..وعلیکم السلام آٶ سنگت یہاں قریب بیٹھو ….. کہو۔۔۔ دیدگ دوران گشت کوئی دشواری پیش تو نہیں آئی …… باقی سنگت کیسے ہیں …. ؟ آپ بھی تو تھک گۓ ہوں گے آرام کرنے کیوں نہیں گۓ ……؟ میرے بیٹھتے ہی یکے بعد دیگر کئی سوالات داغے اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ وہ اپنے زاتی مشکلات و پریشانی کےبارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا….. لیکن میرے چہرے کےتاثرات دیکھ کے تھوک حلق سے اتار کے چند سیکنڈ کے وقفہ لینے کے بعد کہنے لگا …….. سنگت ہم ایک مقدس راہ کے راہی ہیں یہاں آنے سے پہلے ایک جہدکار اپنے تمام تر خواہشات کو قربان کردیتا ہے حتیٰ کہ اپنے گھر بار بیوی بچے ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کے خود کو ایک چیز کے لیئے وقف کردیتا ہے ….. وہ چیز ہے وطن اور قوم کا دفاع اور اس مقصد کے لئے وہ اپنا سب کچھ داٶ پہ لگا دیتا دن میں کئی بار موت کو اپنے سامنے رقص کرتے پاتا ہے ….. لیکن کبھی بھی خوف زدہ نہیں ہوتا ……پتا ہے کیوں ؟ کیونکہ وہ ایک زی شعور سرمچار بنتا ہے اور اس کے ہاں بلوچ قوم و بلوچستان کے دفاع کے علاوہ کوئی مقدس شے نہیں ہوتا …..سنگت ایک جہدکار کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا جذبہ ہوتا ہے اور اسے شعور کے سانچے میں ڈھال کر طاقتور دشمن کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی جاتی ہے۔

سنگت ایک بلوچ کو اپنے قومی جذبات اور احساسات کو شعور کے قالب میں ڈھالنا ہوتا ہے اور جب ایک زی شعور سرمچار اس قومی آزادی کی جنگ کے حوالے سے اپنے جذبات اور گوریلا صلاحیتوں کو نظریاتی سمت دیتا ہے تو وہ ایک فکری و نظریاتی سرمچار دشمن کے کئ سپاہیوں سے بھی اعلیٰ ہوتا ہے ۔ وہ کئ مہینوں تک اپنے خاندن سے دور انہی سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا ہوتا ہے ….. اور جب کبھی اپنے گھر والوں سے رابطہ کرتا ہے غم يا کوئی خوشی کی خبر سنتا ہے تو وہ اپنے آنسوٶں کو روک نہیں پاتا …….. سنگت تجھے یاد ہے پچھلے سال ایک دن میری امی نے مجھ سے مستائی لینے کال کی کہ میرے چھوٹے بھائی نے پورے ڈسٹرکٹ میں ٹاپ کرکے میڈیکل کی سیٹ حاصل کی ہے تو اس وقت میرے آنکھوں سے بے پناہ آنسو نکل آئے اور مزید میں امی سے کوئی بات نہیں کرسکا ……. آج پھر صبح جب امی سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اکلوتی بہن کی کئ ماہ سے طبیعت خراب تھی اور وہ آج ہسپتال میں ایڈمٹ ہے شام نو بجے اس کا آپریشن ہے …..سنگت مجھے بخوبی اندزہ ہے کہ میرے اس مقصد کے آگے کسی اور چیز کی کوئی بھی اہمیت نہیں لیکن دکھ اور غم کا احساس قدرتی ہوتا ہے ……. خیر سنگت بتاٶ کیسا رہا آپ لوگوں کا گشت زگرین بریٹا کو انلوڈ کرکے بائیں ہاتھ میں تھامے ، دائیں ہاتھ سے آر پی جی 7 میری طرف بڑھاتے ہوۓ اٹھنے لگا میں بھی آر پی جی کو کندھے سے لٹکاتے ہوئے اس کے پیچھے چلنے لگا.

ہمارے کیمپ پہنچنے سے پہلے وسیم چائے تیار کرچکا تھا بس سب سنگت ہمارے انتظار میں تھیں ۔ کمانڈر زگرین چائے پینے کے دوران مسلسل خاموشی اختیار کیئے ہوئے تھے ، میں دل ہی دل میں اندازہ لگا رہا تھا کہ شاید سنگت زگرین رات گھر جانے کا سوچ رہا ہے ، اکثر اس قاز سے وابستہ لوگ رات کے اندھیرے میں ہی گھر چلے جاتے ہیں اور رات کے تیسرے پہر ہی وہ واپس گھر سے نکلتے ہیں تاکہ اندھیرے میں دشمن حتٰی کہ ہمسایٶں کی بھی ان پر نظر نہ پڑے ۔ کمانڈر زگرین کے چائے پینے کے دوران ہی تمام سنگت جھگ سے نکل کے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئیں۔

اچانک کمانڈر بولنے لگے ….. سنگت میرے کمان میں تیرے ہی ہم نام ایک نڈر سپاہی تھا جس کا تعلق جھلاوان کے سرزمین سے تھا ، وہ میرے شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ میرا ایک اچھا دوست بھی تھا رات تین بجے کے قریب ہم بھوک اور پیاس سے نڈھال تھیں دیدگ کے ساتھ ہم کل ملا کے چار ساتھی تھیں ، چند منٹوں میں مجھے حتمی فیصلہ سنانا تھا کہ بھوکے پیاسے چالیس کلومیٹر مزید سفر کریں یا دو کلومیٹر دور دیدگ کے گھر کھانے کھانے اور پیاس بجھانے چلے …… آخر کار دیدگ کے ہی اسرار پہ ہمارے قدم اس جانب بڑھنے لگیں جہاں ایک شفیق ماں ایک پرانی چٹائی پہ ہمارے ہی انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی ، ہمیں دیکھ کے وہ اٹھنے کے لیئے اپنی بوڑھی ہڈیوں پہ پوری طاقت لگائی لیکن میں پہنچھتے ہی اسے روکنا چاہی لیکن قربان اس ماں پہ “نما نتا مشتے سرمہ کیو چھنا کہ” وہ کمزور جسم پہ ہی اٹھ کے ہمیں بوسہ دینے لگی۔

چند ہی گھنٹوں بعد ہم واپس اپنی منزل کے لیئے تیار تھے ، اور اماں کی نیک دعائوں کے ساتھ ہم وہاں سے نکل پڑے …. پھر اکثر دیدگ کی ماں مجھے دعوت دیتی رہتی اور میں بھی خوشی سے پہنچ جاتا وہ مجھے دیدگ کی طرح اپنی ہی اولاد سمجھتی …..پھر اچانک ایک طویل جھڑپ کے دوران دشمن کے ساتھ دوبدو لڑائی میں دیدگ شہید ہوئے …. شہادت کے تیسرے دن جب میں اس کے گھر پہنچا تو میں اس ماں کو دیکھ کے حیران ہوا ، وہ ماں آج بھی پر امید تھی ۔۔
“دیدگ ہنا ، کنے اوڑا فخرے نی ام تو کنا مار اُس ، نِی اَم تو کنکہ دیدگ آن بار اُس کُل نم کنا مار کورے ، نم سلامت اورے تو کنے ہچ مفک “

سنگت مجھ سے اس دن کے بعد وہاں جانے کی ہمت نہیں ہوئی اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں ان ماٶں کی امیدوں پہ پورا اتر سکوں گا ؟ کیا میں ان کا حق ادا کرپاٶں گا ؟

سنگت کئی مہینے گزرے اس درمیان میں ایک دن میں عصر کے وقت تہنا ہی اس شفیق ماں کی طرف نکل پڑا …ماں ہاتھ میں تسبیح لئے کچھ پڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اُسے جیسے میرے آنے کی اطلاع پہلے سے ہی مل چکی ہو اور وہ میرے ہی انتظار میں ہو …”اماں انت حوالے نا؟” قریب پہنچتے ہی میں با آواز اس سے ہم کلام ہوا ۔ وہ پھیکی سی مُسکراہٹ منہ پہ سجائے میرے ہاتھوں سے بُوسہ لینے لگا ، پھر مجھے اپنے قریب بٹھاکے ، پانی پلانے کے بعد دھیرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔۔ زگرین آپ بھی میرے بیٹھے ہو اور سب سرمچار میرے بیٹھے ہیں ، لیکن میں نے دیدگ کو جنم دیا ہے ، اسے پالا ہے اسکی تربیت کی ہے ، وہ میرے سامنے ہی بچپن سے لڑکپن ، پھر جوان ہوا ، اس کی کئی یادیں میرے زہن میں نقش ہیں میں انہیں سوچ کے کبھی ہنستی ہوں تو کبھی روتی ہوں ۔ زگرین میرا بیٹا مجھے اپنی تربیت اور دیدگ کی قربانیوں پہ فخر ہے اب اگر میں مر بھی جائو تو مجھے کوئی پشیمانی نہیں ہوگی کیوں کہ میں اپنی فرض ادا کرتے ہوئے ہی مروں گی۔

سنگت ہم دونوں کے ہی آنکھیں نَم تھے لیکن ماں بدستور ہی اپنی باتوں کو آگے ہی بڑھا رہی تھی۔

زگرین ، دیدگ چھوٹا تھا ، جیسے ہی مدرسے کا وقت ہوتا تو وہ سامنے والے شہتوت کے درخت پہ چڑھتا ، کہتا اماں آج میں مدرسے نہیں جائوگا ، پھر کبھی آکے مجھ سے کہنا لگتا اماں میں بڑھے ہوکر وطن کا دفاع کروں گا آزادی کے لیے لڑوں گا ، اپنے شہیدوں کا بدلہ لوں ، میں سرمچار بنوں گا ۔

پتا ہے زگرین دیدگ جب بھی مدرسہ جانے سے انکار کرتا تو میں اسے کہتی ۔۔۔بیٹا جب پڑھوگے نہیں تو سرمچار کیسے بنوگے ۔۔۔اماں بندوق اٹھا کے دشمن سے لڑکے ۔۔۔۔پھر میں اسے سمجھاتی کہ ایک تعلیم یافتہ شخص ہی بندوق کو صحیح استعمال کر سکتی ہے ۔۔۔۔ پڑھوگے نہیں تو شعور کیسے پاوگے کیا ایک بےشعور انسان سرمچار بن سکتا ہے ؟ پھر وہ ایک دم درخت سے چھلانگ لگا کر مدرسہ جانے کی تیاری کرتا ، پھر ایک دن وہ پڑھائی ختم کرکے نوکری یا دولت کی نہیں سوچی بلکہ وہی پرانی بات کہ اماں میں سرمچار بنوگا ، غلامی کے خلاف لڑوں گا اور ایک نہ ایک دن وطن پہ قربان ہوجاو گا ، میں پھر بھی اسے سمجھاتی کہ بیٹا آپ نازک ہے اور جس راستے کا آپ انتخاب کر رہے ہو وہ آزمائشوں اور مصائب سے پر راستہ ہے ، قدم قدم پہ اس راستے پہ خار ہے ، سردی ، گرمی ، دھوپ ، بارش سب کچھ سہنا پڑتا ہے یہ مدرسہ نہیں جب دل چاہے بھاگ کے گھر آجاٶ ۔۔۔۔۔ لیکن پھر بھی ضد کرتا ۔۔۔ اماں میں آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دونگا ، آپ مجھ پہ یقین رکھے۔

زگرین بیٹا ، دیدگ اپنا فرض نبھا چکا ہے ، قربان ہوچکا ۔۔۔۔۔جب کئی دن گزرتے میں اسے یاد کرتا پھر اچانک دروازے کی آواز پہ ہم نیند سے بیدار ہوتے اور چھوٹی چیخ کر کہتی “اماں داڑے ہر دیدگ بسونے ” دیدگ ہنس کے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہتا ، آہستہ بولو کوئی سن لیا تو ۔۔۔پھر چند گھنٹے گزار کے صبح آزان سے پہلے ہی اندھیرے میں نکل جاتا ، اُسے گئے ہوئے کئی دن گزرتے میں اسے یاد کرتی ، اسی شہتوت کے درخت کے نیچھے بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی ۔۔۔۔۔ لیکن اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ۔۔۔۔ اب کہ جب بہار آتی ہے میں اس کے پسندیدہ شہتوت کے درخت کے پاس بیٹھ کے چڑیوں کی شور سے لطف اندوز ہوتی ہوں ، جیسے دیدگ کو صرف میں نہیں بلکہ یہ پرندے بھی یاد کر رہے ہو۔

جب میں اماں سے اجازت چاہی تو وہ میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائوں کے ساتھ اس شرط پہ رخصت کی کہ ملنے آتا رہوں گا ۔

زگرین بولتے بولتے اب چند لمحے خاموش رہا جیسے وہ اپنے آنسوٶ کو آنکھوں میں ہی جذب کرکے انہیں آنکھوں سے باہر نکلنے سے روک رہا ہو ۔ میں مسلسل اسے گھورتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ کمانڈر کیا اب بھی آپ اماں سے ملنے جاتے ہو ؟ کیا میں بھی آپ کے ساتھ اب چلوں ؟

سنگت ۔۔۔ دیدگ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اپنے تمام تر خدمات “فتح اسکواڈ ” کو وقف کر دیئے ۔۔۔ ساتھ ساتھ وہ STOS میں بھی کام کرتے رہے ۔ سنگت دیدگ بلوچ کو خدا نے بےشمار صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بے انتہاء بہادر بھی تھا۔ ایک ایسے مشن کے تکمیل کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بظاہر ناممکن تھا ، لیکن دیدگ بلوچ کی صلاحیتوں کو دیکھ کر کمانڈ کونسل کی طرف سے جلد ہی اُسے اِس مشن کے لیۓ اجازت مل گئی ، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس ناممکن مشن کو ایک سال کے اندر ہی میں ممکن کر دکھائوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک دوران گشت وہ دشمن کے گھیرے میں آگئے اور دوبدو لڑائی کے دوران وہ شہید ہوئے ۔۔۔۔ سنگت کے شہادت کے بعد میں نے اسکی ادھوری مشن کو پورا کرنے کی ٹھان لی ۔۔۔۔ مجھے اس مشن کو مکمل کرنے میں دو سال لگ گئے اور ان دو سالوں میں ۔۔۔ میں کئی طرح کے روپ دھار کے کئی شہروں میں رہتا رہا ۔۔۔۔ دو سال کے بعد جب میں واپس عسکری کاروائی شروع کرنے اپنے کیمپ میں پہنچا تو سب سے پہلے میں اس شفیق ماں سے ملنے کا سوچا ۔۔۔ تاکہ میں اسے مبارک باد دوں کہ دیدگ جس مشن کا خواہش رکھتا تھا آج وہ مکمل ہوچکا ہے اور آج وہ خوش ہوگا کہ اس کا ادھورا مشن اس کے دوست نے مکمل کرلیا ہے ۔۔۔۔ سنگت جب میں اس گاٶں کے قریب پہنچا تو دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اماں چٹاہی پہ بیٹھی میرے ہی انتظار میں ہوگی ۔۔۔۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ شہتوت کا درخت سوکھ چکا تھا ۔۔۔۔ پرندوں کی کوئی چہچہاہٹ نہیں تھی ۔۔۔ جیسے کئی عرصے سے شہتوت کے درخت کو کسی نے پانی نہیں دیا ہو ۔۔۔۔۔ جیسے کئی عرصے سے اماں یہاں سے چلی گئی ہو ۔۔۔۔ کسی راہگیر سے اماں کے بارے میں جب میں نے پوچھا تو پہلے وہ مجھے سر سے پاٶں تک گھور کے دیکھا پھر مجھے ہاتھ سے پکڑ کے وہاں لے گیا جہاں اماں ابدی نیند سورہی تھی ۔۔۔۔ میں ہاتھ اٹھا کے دعا کرنے بعد پھر اس شہتوت کے سائے میں گھنٹوں بیٹھ کے دیدگ اور اماں کے بارے میں سوچتا رہا ، میرے کانوں میں اماں کے وہ آخری الفاظ مسلسل گونج رہے تھے ۔۔۔ ” اب اگر میں مر بھی جاٶں تو مجھے کوئی بھی پشیمانی نہیں ہوگی کیونکہ میں اپنی فرض ادا کرتے ہوۓ ہی مروں گی “

کمانڈر زگرین اس وقت اپنے تمام تر غم بھول کے اماں اور دیدگ کو یاد کرکے افسردہ ہو گئے ۔

شاید یہی وجہ ہوگی کہ کمانڈر مجھے کافی عزت دیتا۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی تمام ٹریننگ کمانڈر زگرین سے حاصل کی اور میں بخوبی اس چیز سے واقف تھا کہ سنگت زگرین کتنے سخت اعصاب کے مالک ہیں لیکن واقعی یہ بھی سچ ہے کہ دکھ اور غم کا احساس قدرتی ہوتا اور ایک مضبوط اعصاب کے انسان کو بھی آنسوں بہانے پہ مجبور کر دیتی ہے ۔

سنگت زگرین اور میں بچپن سے ہمیشہ ساتھ تھے ایک ہی کالج میں ساتھ پڑھتے ساتھ ہی کھیلتے کودتے ….. مجھے یاد ہے ہرسال جب اسکول میں اساتذہ کی طرف سے چودہ اگست منانے کا پروگرام کرتے تو میں لاشعوری طور پر اس پروگرام کا حصہ بنتا اور اس دن سب سے پہلے اسکول پہنچتا اپنے جیب خرچی سے ہی سبز و سفید پرچم خرید کے اسکول پہنچتا جب امی کے منہ سے یہ جملہ سنتا تو سخت تیش میں آتا میں “دیدگ بیٹا آج اسکول سے چھٹی ہے خوامخواہ جانے کی ضد نہیں کرو اپنے باپ کی بات مانو آج گھر پہ آرام کرو کھيلو کودو اپنی سبق دہراٶ اسکول جا کے اپنا وقت برباد نہیں کرو …… لیکن جب میں اور زگرین دوست بنے تو ایک دم میری زندگی تبدیل ہوئی ۔ پھر مجھے یاد نہیں کہ ایک دن بھی ہم نے کبھی چودہ اگست کی تقریب میں گئے ہو۔ ایک دن مجھے یاد ہے کہ کالج میں چودہ اگست کے تقریب کا انعقاد پندرہ اگست کو بریک کے بعد کیا گیا اور زبردستی ٹیچرز ہمیں اس پروگرام میں شامل ہونے پہ مجبور کیۓ تو مجبوراً مجھے اور زگرین کو جانا ہی پڑا ۔ نہ جانے ایک ٹیچر اسٹیج پہ آکے کیا بول رہی تھی کہ اچانک ہال تالیوں کی شور سے گونج اُٹھا میں بھی لاشعوری طور پر تالیاں بجانا شروع کردیا کہ اچانک میری نطر زگرین پر پڑی جو کھائے جانے والی نظروں سے مجھے دیکھ کررہی تھی دیدگ گنوک مسونس انت ؟ دیدگ پاگل ہوگئے ہو کیا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔