بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ مہرجان

198

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

تحریر: مہرجان
دی بلوچستان پوسٹ

‏‎بابا مری پاکستانیت کو ایک قوم تسلیم نہیں کرتے تھے نہ ہی بلوچ سرزمین کو پاکستان کے ساتھ لازم ملزوم ٹہرانے پہ یقین رکھتے تھے ،ان کے مطابق “پاکستان ابتدا سے ہی ایک کالونی رہا ہے یہ کوئی قومی ریاست نہیں ہے , اس نے پندرہ سو میل دورمشرقی پاکستان میں اپنی ظالمانہ طاقت اکثریت کے خلاف استعمال کی ہے” اور ” ننگی خونی آمریت کے ذریعے ان کا استحصال کیا گیا” بقول بابا مری چند غلاموں کو ڈنڈے سے اکھٹا کرکے پاکستان بنایا گیا، جس کی نہ کوئی تاریخ ہے نہ ثقافت ہے ، یہ ایک “خودساختہ پاکستانی قومیت” ہے جس کی کوئی علمی ، سائنسی اور فکری بنیاد نہیں”، بقول بابا مری اس ملک کو پاکستان کہنا ہی صحیح نہیں ہے کیونکہ”کوئ ملک پاک نہیں ہوتا”،مسٹر جناح کو جامع مگر مختصر الفاظ میں انگریزوں کا بندہ کہتے تھے، جس نے ایک دن بھی جیل میں گذارے بغیر انگریزوں کی ایماء پر ہندوستان کو مذہب کے نام پہ تقسیم کرکے ایک الگ نوآبادیاتی ریاست “اسلامی قومیت” کے اساس پہ بنائ ،ان کے مطابق ” یہ انگریزوں کا ایک مفتوحہ علاقہ ہے مذہب کے نام پہ کوئی قوم نہیں بنتی ” بابا مری یہ سمجھتے تھے کہ انگریزوں کے ہی ایماء پر ریاست قلات کا جبری طور پہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیا گیا بابا مری تاریخ کے اوراق کو کچھ اس طرح پلٹتا ہے کہ “چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو قلات کی آذادی کے اعلان کے ساتھ قلات اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں پاکستان نے قلات کے آزاد حیثیت تسلیم کیا تھا دار الامرا اور دارالعوام کی اس قرارداد کہ ہم پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہماری آزاد حیثیت ہے جسے حکومت پاکستان نے بھی تسلیم کیا پھر بابا مری سوال اٹھاتا ہے کہ ” اس کے باوجود کیا ہوا؟ بندوق کے زور پہ قبضہ ! اس کے خلاف جب آغا عبدالکریم خان نے مسلح جدوجہد کی راہ اختیار کی تو انہیں بھی قرآن پہ معاہدہ کرکے پہاڑؤں سے اتارا گیا اور پھر معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوۓ انہیں اور ان کی ساتھیوں کو سزادی گئ ، نواب نوروز خان نے پنجابی جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو بھی قران کےحلف پر ان کو دھوکہ دے کر سزا دی گئ ان کے بیٹوں اور ساتھیوں کو پھانسی دی گئ انیس سو تہتر میں پنجابی فوج کا کا کیا گردار رہا؟ خان قلات اور بلوچ قوم سے کیے گئے معاہدوں کی کہاں تک پاسداری ہوئی؟ ” یہ سارے سانحات انہوں نے کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں پڑھے بلکہ ان کے مطابق ” یہ سب کچھ ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوا” بابا مری یہ سارے واقعات و سانحات کو ایک سیاسی فلاسفر کی طرح ” نئی نوآبادیات ” کی تاریخ سےتعبیر کرتا تھا۰

‏‎تاریخی تناظر میں ان واقعات و سانحات کے نتیجے میں ایک فلسفیانہ نقطہ نگاہ کا آنا بہر طور قرین قیاس تھا بابا مری انہی مشاہدات کے بناء پر فکری طور پہ ارتقائی مراحل طے کرتے گئے، کیونکہ وہ ایک سیاسی فلسفی کی طرح سنتا تھا، پڑھتا تھا ،سوچتا تھا، مشاہدہ کرتا تھا،انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت بلوچ قوم کی آزادی کی مطالبہ نہ کرنے کو اپنی سیاسی شعور کی کمی قرار دےکر اسی سمت کا انتخاب کیا جو ان سے پہلے آغا عبدالکریم خان، نواب نوروز خان سیاسی طور پہ کسی حد تک کر چکے تھے، اور آخری دم تک ایک حریت پسند جہد کار کی مانند آزادی کے نصب العین کے لیے اپنی زندگی وقف کردی، اور ان کا یہی اتحکام ان کی خوبصورتی ٹہری، بابا مری اس عہد کا ایسے سیاسی فلاسفر تھے جن کے بغیر بلوچ قوم کی سیاسی و قومی تاریخ نامکمل ہے، اعصابی فولاد کے مالک بابا مری زمینی حقاہق و تاریخی شعور کو سامنے رکھتے ہوۓ بلوچ قوم کے نہ صرف زوایہ نظر کو بدلا بلکہ طرز عمل کو بھی جلا بخشی، یعنی رائج الوقت سیاسی نظام/سیاسی وجودیات جو سیاسی طور پہ استبدایت اور اجاراداری کی علامت تھی اس پہ کئی انمٹ سوالات نقش کیے ، انہیں بخوبی اس بات کا ادراک تھا کہ ظاہری آزادی کا یہ دور دراصل نئی نوآبادیاتی دور ہے ،وہ اس نئی نو آبادیاتی دور میں بلوچ قوم کے مقدمے کو منطقی انداز میں پیش کر کے آزادی کی جنگ جو مختلف مراحل میں جاری تھے اس جنگ کو بلوچ معاشرہ سے جوڑ کر اسے سماج کے اندر سرایت کرنے کے جوہر (پوٹینشلیٹی)کو پا لیا، اور اس جوہر کی ایکچوئلائزیشن بلوچ سماج میں ایک ایسی سیاسی زہن کی پرورش کے طور پر کی جو واقعات کو محض واقعات کے طور پہ نہیں بلکہ سیاسی کلیت (زمانی و مکانی ، علت و معلول اورمستقبل پر ان کےاثرات) کے تناظر میں دیکھتا ہے ، جس سے زوایہ نظر اور طرزِعمل میں تبدیلی لازم تھی، وہ فلسفیانہ تناظر میں بلوچستان کو نوآبادیات کا مرکزسمجھتے تھے کیونکہ ان کے مطابق ” یہاں پانی، زمین اور معدنیات ہیں ” دنیا میں جہاں کہیں بھی بلخصوص سہ براعظم میں اس طرح کی سرزمین پائ گئ وہ کم و پیش نو آبادیات کامرکز ہی بنی ہے ، یلغار کی صورتیں مختلف تو ہوسکتی ہے جن پہ ملمع کاری تہذیب تمدن کے نام پہ کالوناہزر کے دانشور کرتے آرہے ہیں لیکن سامراج کی نظر وہاں کے باسیوں سے بڑھ کر ان کے ساحل و وساہل پر ہوتی ہے وہ انہیں کیڑے مکوڑے سمجھ کر نہ صرف انکی وجود کو روند دیتے ہیں ، بلکہ تہذیب و تمدن کے نام پہ ان کی تاریخ ، شناخت ، اقدار پر بھی حملہ آوار ہوتے ہیں حتی کہ فکری و عملی فضاء کو بھی نو آبادیاتی اقدار سے گردآلود بنالیتے ہیں۔

‏‎نوآبادیات دراصل خود اک مکمل میکنزم ہے۔جس کے تضادات کو سمجھمے کے لیے ایک سیاسی دماغ درکار ہوتاہے ، نوآبادیات کی ساخت تاریخ کی دھندلکوں میں اور اثرات خون کے دھاروں میں لپٹی بہت دیر تک رہے گی، اس کے اپنی اندرونی تضادات نے ایشیاء ،افریقہ ، ساؤتھ امریکہ سمیت بیشتر اقوام میں بڑے بڑے دماغ پیدا کیئے ۔ گاندھی ، ٹیگور ، سیزر ، ,البرٹ میمی ، کیبرال ، فینن ، نگوگی سہ براعظمی خطوں کے زرخیز سیاسی دماغ تھے، ھیر بگش مری بھی انہی شخصیات کی طرح ایک زرخیز فلسفیانہ دماغ کا مالک تھا، جو “نئی نوآبادیاتی” تناظر میں شناخت ، اقدار اور آذادی کے فلسفے پہ نہ صرف کاربند رہا ، بلکہ وہ اس کالوناہزڈ اسٹرکچر (نوآبادیاتی ساخت) و میکنیزم و نیٹ ورک کے پرزے پرزے سے یعنی تار و پود سے واقف کار بھی رہا، اس لیے وہ ہمیشہ “میگا پروجیکٹس” کو “میگا ایکسپلائٹیشن” کا نام دیتے تھے، وہ ایک سیاسی فلاسفر کی طرح کالونئیل ازم میں سامراج کی ترقی پہ ریڈیکل انداز سے رد عمل دیتے رہے , وہ اس تاریخ کا منکر تھے جو بقول شہید پیٹرس کے “برسلز, پیرس, واشنگٹن اور اقوام متحدہ میں پڑھائی جاتی ہے.” بلکہ وہ اس تاریخ سے واقف تھا کہ ” افغانستان میں روسی افواج کے لیے سڑکوں کا انفرا اسٹرکچر موجود نہیں تھا لیکن چیکوسلواکیا میں تھا اس لئے روس نے وہاں آسانی سے قبضہ کرلیا ” وہ کالونئیل ازم کے لوٹ مار سے بڑھ کر کالونئیل اسٹرکچر اور ریاستی بیانیہ کو بھی چیلنج کرتے تھے ، وہ اس تناظر سے بخوبی آگاہ تھے کہ “سڑک ان کے لیے ملیشیاء پولیس تھانہ لاتی ہے”۔ آج مکران اس کی بہترین مثال ہے کہ مکران تک شاہراہیں وہاں چھاؤنیوں کی قیام اور لاجسٹک سپورٹ کے لئے بچھائ گئ ہیں، اور ساتھ ساتھ ان کا یہ کہنا نوشتہ دیوار بن چکا ہے کہ “بالادست کے منہ سے محکوم قوم کے لیے ترقی کا لفظ صرف لوٹ کھسوٹ کیلیۓ نکلتا ہے” ، وہ تاریخ کے اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ “رومیوں کی اصطلاح کالونئیل ازم کامطلب ہی مقبوضہ علاقوں میں نو آبادیاں قائم کرکے مقامی آبادی کو بے دخل کرنا” ہے، جسے سیاسی اصطلاح میں “ڈیموگرافک چینج” کہا جاتا ہے جو آج کل بلوچستان کے علاقوں میں ترقی کے نام پہ ہورہا ہے، وہ ان ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے سامراج اور پنجابی کے مفاد اور کالونئیل اسٹرکچر کو سیاسی طور پہ فلسفیانہ نقطہ نظر سے دیکھتے تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔