دشمن وہی مارنے کا طریقہ الگ – مِہروان بلوچ

610

دشمن وہی مارنے کا طریقہ الگ

تحریر: مِہروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آپ لوگوں کو پتہ ہوگا حال ہی میں بلوچستان کے علاقہ وِندر میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔ جِن میں ہمارے چھ خوبصورت نوجوان شہید ہوئے تھے۔ جن کا تعلق پروم ضلع پنجگورسے ہے۔ پروم بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جس میں بہت سے شہیدوں کا داستان دفن ہے۔ اس علاقے سے جو نوجوان شہروں میں جاتےہیں تو اُدھرخوداعتمادی ،روشن خیالی ،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرتے ہیں اوراپنے شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے آگے جانے کا جزبہ رکتھے ہیں۔ یہ نوجوان تو ایک خواب کا تسلسل تھے۔ سماج میں مثبت تبدیلی کا خواب تھے۔ صرف چھ لوگ نہیں تھے یہ بلوچستان کے کل کے وہ روشن مستقبل تھے کہ سارے بلوچ قوم کی آنکھیں ایسے ہی شخصیت پر ہیں اور بہت ضروری ہے بلوچ قوم کو ایسے نوجوانوں کا ۔۔۔بلوچ جَدوجُہد کو آگے لے جانے میں لیکن بد قسمتی سے ہم ایسے دجّال قبضہ گیر کہ قبضے میں ہیں کہ ہر وقت ایسے نوجوان آسانی سے شہید کیے جاتے ہیں اور ہم خاموشی سے بیٹھ کر تماشائی بن جاتے ہیں اور اسے ایک حادثہ سمجھ کر چند دنوں میں اسٹیٹس لگا کر پھول جیسے جہد کاروں کو آسانی سےبھول جاتے ہیں۔

یہ ہماری بے شعوری ہے کے ہم اپنے دشمن کو پہچان نہیں رہے ہیں کہ ہمیں کہاں کیسے بے دردی سے شہید کر رہا ہے ۔ اور ہم سب کچھ تحریروں میں لکھتے ہیں ان کے بارے میں کے ہم کہاں ملے تھے چائے پیا وغیرہ وغیرہ اور آخر میں لکھتے ہیں اپنے تحریر میں کے اللّہ جنّت نصیب کرے لیکن کوئی بھی انکے نظریہ پر نہیں لکھتا۔

سنگت ظاہر اُن شخصیتوں میں سے تھے کہ پَنجگُور جیسے علاقے میں اِن حالتوں میں بغیر ڈَر کے ہر وقت میں نوجوانوں کو اکٹّھا کرنا قومی شعور دینے اور پروگرام میں مصروف تھا جس میں خوداعتمادی ،روشن خیالی ،سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر شرکت اوراپنے شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے آگے جانے کا جزبہ تھا اور اچانک اسکا شہید ہونا قوم کیلئے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں ہے اور قوم کیلئے ایک سوالیہ نشان بنتا ہے۔ قوم کو ایسے نوجوانوں کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہیئے۔ سنگت مہروان شہاب جان ہر وقت اپنے غلامی کا احساس جب بھی کسی سے ملتے تھے تو ایسے بات کرتے اپنے غلامی کے بارے میں اپنے گلزمین بلوچستان کے بارے میں بس سنگت(دوست) اُسکو دیکھتے ہی رہے ایسے دوستوں کا اِتنا جلدی جانا قوم کیلئے ایک بڑے سانحے سے کم نہیں ہے میں کہتا ہوں کہ علم و زانت کے درخت کا ایک ایسا شاخ ٹوٹ گیا کہ وہ درخت اب فصل دینےکے قابل ہی نہیں رہا۔

ہم آتے ہیں اپنے اصل بات پر کہ دُشمن تو وہی ہے بلوچوں کو شہید کرنا یہی مقبوضہ پاکستان ہے کہ بلوچستان کو 1948 27ءمارچ سے زور زبردستی قبضہ کرکے بلوچوں کو غلام بنایا ہوا ہے لیکن بلوچ قوم اُسی دن سے اپنے وطن بلوچستان کی آزادی اپنے گلزمین کی آزادی کیلئے دن و رات جد و جُہد کر رہے ہیں اور مقبوضہ پاکستان 1948 سے آج تک بلوچوں کو بے دردی سے شہید کر رہا ہے کبھی سنگت حیات کی شکل میں اِن کے ماں باپ کے سامنے آٹھ گولی مار کر شہید کر دیتا ہے اور غلطی کا نام دے کر لوگ سوشل میڈیا میں پوسٹ کرکے کچھ دن بعد بھول جاتے ہیں کبھی بالاچ کی شکل میں اور کبھی سنگت ظاہر، شہاب اور باقی دوستوں کی شکل میں روڈ حادثہ کا نام دے کر شہید کردیتا ہے۔ دشمن وہی قبضہ گیر ریاست اور مرنے والا مقبوضہ بلوچستان کے بلوچ۔

ہاں میں 100% یہ کہتا ہوں کے مقبوضہ ریاست نے اِنکا اِکسیڈنٹ کروایا کیوں کہ نا گاڈی کے ڈرائیور کا پتہ چلتا ہے نا ٹرک ڈرائیور کا کوئی پتہ ہے ۔ پِر بات وہی بات آتا ہے کہ دُشمن وہی اور مرنے والا صرف اور صرف بلوچ اِدھر ایک سوالیا نشان آتا ہے کہ بلوچ کیوں کہ ہم بلوچ غلام ہیں اور غلامکی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتا ہے۔

ہم سب کو اِس پر سوچنا ہے اور اپنے وطن کی آزادی کیلئے جد و جہد کرنا ہے مرنے سے نہیں ڈرنا ہے کیوں کہ قومیں مرنے سے نہیں بلکہ ظالم کے سامنے سر جُکھانے سے مِٹ جاتے ہیں۔ تو ہم سب کو مل کر اِس جد و جُہد میں اپناقومی کِردار ادا کرنا ہے۔ کب تک سنگت شھاب جیسے بے دردی سے شہید کیے جاتے ہیں سنگت ظاہر جیسے نوجوان جہدکار کو ایسے جلدی شہید کیا جاتاہے اور ہم تماشائی بن کر رِہ جائیں ہم سب کو ضرور اِس جدوجُہد میں اپنا حصّہ ڈالنا ہے۔

ابّا خیربخش مری بلوچ اپنے ایک تحریر میں کہتا ہے کہ اگر آپ پہاڈوں میں جاؤ اور جنگ کا حصہ بنو اگر پہاڑوں میں جا نہیں سکتے تو لکھیں اپنے قوم کو شعوری دیں اگر آپ لِکھ نہیں سکتے تو جو قومی جنگ چل رہا ہے اُسکا رازدار بنو بس آپ جَدوجُہد کے حصہ ہیں اور اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔