شہید کاشف جان عرف روکین ۔ درشن بلوچ

912

شہید کاشف جان عرف روکین

تحریر: درشن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

یہ جولائی 2023 کی بات ہے جب میرے ایک دوست نے مجھے بی ایل اے کے سنگتوں سے ملنے کی اجازت دے دی اور مجھے تاریخ، وقت اور جگہ کا بتا دیا اس دن میں اتنا خوش تھا کہ بے صبری سے اس تاریخ کا انتظار کرنے لگا مگر وقت ہی تھا جیسے رکا ہوا ہو پھر آخر وہ دن بھی آگیا جس کا مجھے بے صبری سے انتظار تھا۔

میں دوپہر کے ایک بجے گھر سے نکلا اور اس جگہ کی جانب رواں ہوا اور چار بجے اس جگہ پر پہنچ کر اس دوست کو میسج کر دیا اور اس نے نشانیاں پوچھ کر انتظار کرنے کا بولا۔ تقریباً 15 منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک لاغر سا بندہ موٹرسائیکل پر سوار میری جانب بڑھ رہا تھا پہنچتے ہی سلام کرنے کے بعد میرا کوڈ نام پوچھا اور پھر ہم دونوں وہاں سے نکل گئے۔ موٹرسائیکل پر سوار اپنے ذہن میں سنگتوں کی باتوں کی، پہاڑوں کی اور اُن سنگتوں کی تصوراتی عکس بنا رہا تھا اور عجیب عجیب سوالات میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے۔ پھر اس تصوراتی دنیا میں اپنے سوالات کا جوابات ڈھونڈتے ہوئے اس دنیا میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک دوست نے موٹرسائیکل روک دی اور سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے موبائل پہ ایک گانا چلایا اور میں اس پہ غور کر رہا تھا کہ وہ اس سگریٹ کی دھوئیں اور گانے میں کھویا ہوا کسی پہاڑی کی چوٹی پر نظر جمائے دیکھ رہا تھا۔

چند لمحوں کے بعد اس نے اپنا سفر جاری رکھنے کا کہا اور ہم دونوں آدھا گھنٹہ سفر کرنے کے بعد رک گئے تھوڑا دور پیدل سفر کرنے کے بعد جب میں نے اوپر دیکھا تو دونوں اطراف کے پہاڑوں سے اٹھ کر سرمچار ہمارے سامنے آگئے۔ جب میں ان سے ملا تو مجھے لگا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں جیسا میں نے اپنے ذہن میں ان سنگتوں کا عکس تصور کیا تھا وہ بالکل اسی طرح میرے سامنے آکر رک گئے۔ ہمیں سلام کیا اور حالحوال کرنے کے بعد جس دوست نے مجھے پہنچایا تھا وہ واپس رخصت ہو کر چلے گئے پھر میرا باقی سفر ان آٹھ سنگتوں کے ساتھ شروع ہو گیا۔

سب نے اپنا کوڈ نام نام بتا دیا اور مجھ سے میرا کوڈ نام پوچھا۔ دو سنگت میرے ساتھ آرہے تھے باقی ہم سے آگے نکل چکے تھے جو دوست میرے ساتھ تھے وہ جنگوں کے قصے سناتے ہوئے اور ہم پر ہنستے ہوئے اپنا سفر طے کر رہے تھے۔ مجھے احساس ہوا اگر انسان کی زندگی میں ایسے مہرداد دوست ہو تو یہ اندھیری رات بھی دن کی طرح اُجالا ہو اور ایسی مقصد کی جہد میں اگر ایسے سنگت ملتے ہوں تو انسان عظیم لوگوں کے ساتھ مل کر ایسے عظیم مقصد کو حاصل کر سکتا ہے۔

رات کی تقریباً دس بجے تھے جب ہم باقی دوستوں کے ساتھ کیمپ پہنچ گئے ہمارے پہنچتے ہی دوستوں نے روایتی انداز میں سلام کرتے ہوئے ہمارے سامنے کھڑے ہوئے ان میں سے ایک دوست روکین جان بھی تھا۔ اس کے سر پر چادر بندھا ہوا تھا اور چہرے پر مسکراہٹ تھی ہم سے ملنے کے بعد وہ اٹھ کر ہماری مہمان نوازی کرنے کے لیے ہمیں پانی کی پیشکش کی اور جلتے ہوئے آگ پر چائے رکھ دیا اور واپس آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس اندھیری رات میں روکین جان کا چہرہ چاند کی طرح روشن اور خوبصورت تھا۔ وہ بہت کم بولتا تھا اور جب کچھ بولتا بھی تو نہایت ہی دہیمی لہجے سے بولتا تھا۔ اس کی اسی پُرکشش انداز ،سنجیدگی اور لہجہ سامنے والے کو نہایت ہی متاثر کرتا تھا۔

وہ اکثر اپنے ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ باقی دوستوں کی ذمہ داریاں بھی خود سرانجام دیتا تھا جب بھی ہم بلوچ قوم کی غلامی پر بات کرتے تو میں بار بار یہ محسوس کرتا کہ روکین جان کی آنکھیں نم ہو جاتے تھے۔ نہ جانے وہ کیا عشق تھا وطن سے جو وہ دشمن پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ جب وہ فتح اسکواڈ میں شامل ہوا تو اس دن اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ وہ بات بات پر مسکرا دیتا اور مجھ سے کہتا ” یا کنے او مات ایتک یا خلیوہ شا اے تہ۔خلنگ کن خلیک کنے ولے اوکن مُست اشیوہ ہُرا اے تہ”

ایک دن جب ہم کسی محاز سے واپس آئے تو وہ کسی گہرے سوچ میں گم تھا۔ جب میں نے دریافت کیا تو اس نے مسکرا کر مجھ سے ایک وعدہ لیا کہ میرا ایک پیغام میرے دوستو،گھر والوں بالخصوص میرے بلوچ قوم تک پہنچانا۔ میں نے وعدہ تو روکین جان سے لیا مگر کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ میرے لیے اتنا مشکل ہوگا۔ روکین جانے سے پہلے سنجیدگی سے سوچنے کے بعد پھر کہنے لگا کہ میرے مرنے کے بعد میرے لیے افسوس کبھی نہیں کرنا بلکہ میرے راستے پر چل کر باقی تمام دوستوں کے ساتھ مل کر اس سامراجی قوت کا مقابلہ کرنا اور اس کے خلاف ڈٹ کے کھڑے رہنا اور آنے والے نسلوں کے لیے یہ سرزمین آزاد کرنا۔

میں جب تک زندہ ہوں اس ناپاک فوج کے سامنے نہیں جھکوں گا بلکہ اپنے دشمن سے آنکھیں ملا کر اس کا مقابلہ ایسے ہی کروں گا جیسے مجھ سے پہلے باقی میرے ہم فکر کرتے رہے ہیں۔

میرا عظیم دوست، میرا ہم فکر، میرا راہشون میں جانتا ہوں کہ میں اگر ساری عمر بھی آپ کے کردار پر لکھوں بھی تو شاید میرے الفاظ ختم ہوں مگر آپ کے کردار کی بلندی کو بیان نہیں کر پاؤں مگر یہ میرا وعدہ ہے کہ آپ کی اس عظیم فکر اور نظریے کا تاحیات پاسداری کروں گا اور آخری سانس تک آپ کے عظیم مقصد کے لیے لڑتا رہوں گا اور بلوچ قوم کو آپ کی داستانیں سناتا رہوں گا اور اس غلامی کی زندگی سے آگاہ کرتا رہوں گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔