نہتی ریاست ۔ عزیز سنگھور

108

نہتی ریاست

تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ خواتین اور بچیوں کی قوت کے سامنے تمام ریاستی طاقت شکست خوردہ ہوگئی۔ اس ریاستی ہار کا اظہار اس وقت سامنے آیا جب بلوچ خواتین کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت کہانیاں سامنے آگئیں۔ یہ عمل ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ فوٹو شاپ کے ذریعے بلوچ بچیوں کی نازیبا و غیراخلاقی ایڈٹ کردہ تصاویرجاری کردیں۔ جس کا مقصد عورت ذات کو بلیک میلنگ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ تاہم بہادرغیرت مند بلوچ قوم کی بیٹی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی سمی دین بلوچ نے اس اوچھے ہتھکنڈے کا منہ توڑ جواب دیا اور اپنا نقاب اتار دیاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور عورت میرے نقاب لگانے کے فیصلے کو کمزوری سمجھا گیا۔ اور کہا کہ وہ اتنی کمزور اور لاچار نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک باہمت اور غیرت مند لڑکی ہے۔

تخت اقتدار کے شہر اسلام آباد میں جاری بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کامیاب تحریک نے حکومت کے چھکے چھڑادیئے۔ ان کی ہر سازش کو ناکام بنادیا۔ ان عورتوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت سے کئی زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔ سرکاری مشینری ان کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔ بلوچ خواتین کی اس تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے اپنے تمام تر حربوں میں ناکامی کے بعد اب بلوچ خواتین کے ننگ و ناموس پرحملہ آور ہوگئے۔ اوران کیخلاف نازیبا وغلیظ حرکتوں پر اترآئے۔

اس حرکت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ نہتی بلوچ لڑکیاں نہیں ہیں۔ یہ بے چاری اور لاوارث لڑکیاں نہیں ہیں۔ بلکہ ریاست نہتی اور بے چاری ہے۔ ریاست کی اس لاوارثی اور کمزور پن پر افسوس ہوتا ہے۔ جو اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ وہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے۔

سب سے پہلے حکومتی اداروں نے اسلام آباد میں بلوچ خواتین اور بچیوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ سے استقبال کیا ان پر رات کو واٹر کینین کا استعمال کیا گیا۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں بالوں سے گھسیٹ کر پولیس موبائلوں میں ڈالا گیا۔ انہیں پولیس تھانے میں قید کیا گیا۔ ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ انہیں ڈرانے اور دھمکانے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ بعد میں انہیں پنجاب سے بدر کرنے کا پلان بنایا گیا۔ انہیں زبردستی بسوں میں ڈالا کر واپس بلوچستان روانہ کرنے کی کوشیش کی گئی۔ تاہم بلوچ خواتین نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کیا اور وہ آخری دم تک ڈٹی رہیں۔ اور وہ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ جہاں نے انہوں نے اپنا احتجاجی کیمپ لگایا۔ تاہم حکومت اپنے حربے سے باز نہیں آئی۔ سیکیورٹی ادارے رات کے تین بجے مظاہرین کے لاؤڈ اسپیکر چوری کرکے لے گئے۔ نوبت لاؤڈ اسپیکر کی چوری تک پہنچ گئی۔ اس طرح کی گری ہوئی حرکت کرنے سے ان کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اسپیکر کی چوری کے بعد حکومت کے سربراہ یعنی نگران وزیراعظم انوارالحق چودھری (کاکڑ) میدان میں اتر گیا۔ چودھری صاحب نے ایک تقریب کے دوران اسلام آباد پریس کلب کے باہر جاری بلوچ لاپتہ افراد کے دھرنے کے لواحقین کی وابستگی کو بلوچستان کی آزادی پسند تنظمیوں سے منسلک کیا اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے بلوچ خواتین پر بدترین تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ چار ڈنڈے پڑنے پر واویلا کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے ریمارکس سے بلوچ عوام کی بلوچی روایت کی تذلیل ہوئی۔

نگران وزیراعظم کے اس طرح کے جملوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگی جیسے اہم مسئلے پر حکومت سنجیدہ نہیں ہے اور وزیراعظم اپنے ملکی آئین و قانون کے برعکس خیالات کے مالک ہیں۔ جس سے وفاق اور بلوچ کے عوام میں جاری خلیج میں مزید دراڑیں پیدا ہوگئیں ہیں۔
نگران وزیراعظم کے ریمارکس میں بھی بلوچ خواتین نے اپنی سیاسی بصیرت سے حکومتی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور ہمت و جرت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن حکومت اپنے ناکام ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئی۔ سرکار نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک نگران وزیر کو میدان میں اتار دیا۔ شاشے کی پیکنگ کی مانند نومولود بچے کا استعمال کیا گیا۔ بلوچستان سے مستعفی ہونے والا نگران وزیر کھیل جمال رئیسانی کو اسلام آباد روانہ کردیا۔ جہاں وہ اسلام آباد پریس کلب کے باہر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاجی دھرنے کے مد مقابل آگئے۔ انہوں نے وہاں اپنا ایک الگ کیمپ لگادیا ہے۔ اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ اور وہ ریاستی بیانیہ کا پرچار کررہے ہیں ۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت بھی ان کی اپنی ہے۔ اور مطالبات بھی اپنی حکومت سے کررہے ہیں۔ اس عمل سے وہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ کیا حکومتی رٹ ختم ہوگئی ہے۔ کیا حکومت ناکام ہوچکی ہے؟ اگر دہشتگرد طاقتور ہیں تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ دہشتگردوں کو گرفتار کریں۔ بلوچستان کے سورش زدہ حالات کی ذمہ دار یہ بلوچ خواتین نہیں ہیں۔ بلکہ حکومت کی “مارو اور پھینکو” والی پالیسیاں ہیں۔ جس کی وجہ آج بلوچستان 23 سالوں سے جل رہا ہے۔ اس آگ کی ذمہ دار خود حکومت ہے۔ ان کی غلط پالیسیاں ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے آج پورا بلوچستان آگ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اگر حکومت کے پاس کوئی پالیسی ہے تو بندوق کی نوک والی پالیسی ہے۔ اگر بزور طاقت مسئلے کا حل ہوتا تو آج امریکہ افغانستان سے نہیں بھاگتا۔
امریکہ پاکستان سے کئی زیادہ طاقتور ریاست ہے۔ بلکہ وہ دنیا کی سپر طاقت ہے۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ بندوق سے مسئلے کا حل نہیں نکلتا۔ لیکن ہماری سرکار عقل سے پیدل ہوچکی ہے۔

ریاستی کی جانب سے طاقت کے ذریعے بلوچ خواتین کا مقابلہ کرنے میں ناکامی کے بعد سرکاری ادارے بلوچ غیرت مند خواتین اور بچیوں کی نازیبا تصاویر بناکر میدان میں اتر چکی ہے۔ شاید بلوچ قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان کے مدمقابل ان کے معیار کے مطابق نہیں ہے۔ ان کے جنگی اصول جنگی روایت کے منافی ہے۔ ان کا کوئی اصول اور روایت نہیں ہے۔ آج بلوچ خواتین قوم کی لیڈر ہیں باقی سب گیدڑ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔