محمود خان اچکزئی اپنے انتخابی اہداف کیلئے تاریخی، سیاسی و جغرافیائی بددیانتی کررہے ہیں – وحید بلوچ

269

‏محمود خان اچکزئی قابل احترام پشتون سیاسی رہنما ہیں لیکن حالیہ کچھ دنوں سے پشتون علاقوں میں سیاسی و انتخابی مہم کے دوران پشتون عوام کے معصوم اور اُجلے جذبات کو بلوچوں کے خلاف لسانی و علاقائی متعصبانہ خیالات پرچار کرکے اپنے سیاسی و انتخابی اہداف کے حصول کیلئے تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی بددیانتی کررہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار بی ایس او کے سابقہ چیئرمین و بلوچستان اسمبلی کے سابقہ اسپیکر وحید بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کیا۔

وحید بلوچ نے ان خیالات کا اظہار پشتونخوا میپ کے رہنماء محمود خان اچکزئی کے اس بیان کے ردعمل میں کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ “بلوچ اسی لاکھ کے ہوتے ہوئے دس کروڑ پنجاب کے ساتھ برابری مانگتے ہوں تو انہیں اسوقت تک صوبے میں پشتونوں کی برابری ماننی چاہیے۔”

 وحید بلوچ کا کہنا ہے کہ قوموں کی علمی و سیاسی تعریف میں انکی عددی تعداد یا آبادی شمار نہیں ہوتی۔ آج دنیا میں ایسے ممالک اور قومیں ہیں جن کی آبادی سینکڑوں یا ہزاروں میں ہے اور اقوام متحدہ میں ممبر ممالک کی حیثیت سے روس، چین، امریکہ اور ہندوستان کی برابری میں بیٹھتے ہیں۔ ‏بلوچ اور پنجابی کی آبادی کی تناسب کی مثال دیکر آپ انتہائی غیر معقول دلیل اور جواز دیکر سادہ لوح پشتونوں کو ورغلا رہے ہیں۔

انہوں نے اس حوال سے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏بلوچوں کی پنجابی سے لڑائی برابری کی نہیں ہے بلکہ پنجابی استعمار کی قبضہ گیری، استحصال اور ریاستی دہشت گردی کے خلاف اپنے وطن پر اپنے اختیار اور حق حاکمیت کے لئے ہے۔ ہمارے اکابرین نے بلوچستان پر پاکستانی قبضہ کے بعد پاکستان میں قرار داد پاکستان سے لیکر ۱۹۵۶، ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ کے آئین کے تحت باہمی مساوات اور اپنے وسائل پر اختیار کیلئے ساتھ چلنے کی حتی الوسع کوشش کی جس کا نتیجہ اب تک ڈھاک کے تین پات والا ہی نکلا ہے۔ اس دوران بلوچوں کی انتھک کوشش اور جہد رہی کہ پاکستان کی صوبوں کی نئی جغرافیائی حد بندی کرکے قومی وحدتیں تاریخی، لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر تشکیل دی جائیں جو کہ ہنوز حل طلب مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کو آپ بنیاد بنا کر لسانی منافرت، تعصب اور بلوچ دشمن جذبات پشتونوں کے ذہنوں میں ابھار رہے ہیں گویا بلوچ ایک استعماری، قابض، استحصالی قوم ہوکر پشتونوں کے حقوق سے انکاری ہے۔ یہ نقطہ نظر فکری اور سیاسی مغالطہ اور سماجی سائنس کے قوانین کے منافی ہے۔ اس قسم کے خیالات کو پروان چڑھانا بلوچ اور پشتون ہمسایہ اقوام میں دوری اور مخاصمت کے باعث بن سکتے ہیں۔

وحید بلوچ کا کہنا ہے کہ ‏اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ اور پشتون اپنے تاریخی سرزمین پر آباد ہیں لیکن پاکستان کی جغرافیائی حدود میں دونوں کی حیثیت محکوموں کی ہے۔ ایسے میں اگر آپ محکوم ہوکر اپنی حاکمیت اور اختیار کی جنگ پنجابی حاکم سے لڑنے کے بجائے دوسری محکوم قوم بلوچ کی جانب موڑ کر جو مطالبہ کررہے ہیں وہ دراصل پنجابی اختیار کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ اور بلوچ کی اپنے وطن پر اختیار کی جدوجہد میں روڑے اٹکانے کےمطابق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏پاکستان میں پشتونون کا اپنا ایک صوبہ ہے اور تاریخی طور پر انکا کچھ علاقہ اور چند قبائل جبری طور پر بلوچستان میں شامل کئے گئے اور اسی استعماری پالیسی کےتحت بلوچ قوم کی تاریخی سرزمیں کی بھی کتربرید کرکے سندھ اور پنجاب کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ اصولوں کو مد نظر کر بلوچ اکابرین اور دانشوروں نے ہمیشہ تاریخی، لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر صوبوں کی ازسرنو تشکیل کی بات کرکے پنجاب کی استعماری قوت کو اس کتربرید کا ذمہ دار ٹھرایا نہ کہ ان صوبوں میں بلوچ آبادی کو جواز بنا کر برابری کا ڈھنڈورا پِیٹ کر لسانی عصبیت اور منافرت پھیلائی۔ جس طرح آپ چند پشتون قبائل کو لیکر لسانی منافرت بھرےنعروں کے ذریعے عام پشتونوں کے جذبات کو ابھار کر وقتی سیاسی اور انتخابی کامیابی کیلئے یہ راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔

‏انہوں نے کہا کہ ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ اپنے ہی نعرے جنوبی پشتونخواہ کی نفی کرتے ہیں جب آپ بلوچستان میں برابری کی بات کرتے ہیں۔ میرا مودبانہ سوال ہے کہ اگریہ فرض کرلیں کہ بلوچ آپ کی موجودہ پاکستان کی تشکیل شدہ بلوچستان میں برابری قبول کرلیں تو کیا آپ جنوبی پشتونخواہ کے نعرے سے دستبردار ہوکر بلوچستان کے شہری کی حیثیت قبول کریں گے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اسکا مطلب ہے آپ جو پشتونستان، افغانییہ یا پشتونخواہ نعرہ لگا رہے ہیں وہ محض پاکستان میں سیاسی بلیک میلنگ کے لئے ہے ‏اور اگر نہیں میں آپ کا جواب آتا ہے تب بھی بات سیاسی بلیک میلنگ کی شکل میں آتی ہے کیونکہ بلوچستان میں برابری کی صورت میں بلوچستان کی قومی آزادی اور اختیار کی جنگ میں بھی برابری کا حصہ ڈالنا ہوگا کیونکہ بلوچوں کی پنجابی استعمار کے خلاف سیاست، تحریک، مزاحمت صرف پاکستانی پارلیمان تک محدود نہیں ہے۔ برابری کے بعد جنوبی پشتونخواہ کا کوئی جواز نہیں رہتا اگر آپ تب بھی اس پر اٹکے رہیں گے بات پھر وہی سیاسی بلیک میلنگ پر ختم ہوگی۔

‏وحید بلوچ نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکابریں نے آپ کے ساتھ ملکر پاکستان میں قوموں کی برابری کا نعرہ لگایا ہے اور آج ہم بلوچ، پشتوں، پنجابی اور سندھی کو برابر اور سیال اقوام تسلیم کرتے ہیں لیکن آپ کسطرح پشتون قوم کے بلوچستان کی جغرافیہ میں چند قبائل کو بلوچ قوم کے ساتھ برابری دلانا چاہتے ہیں۔ ہم بلوچ پشتوں برابری کے صد فیصد حق میں ہیں جس میں پاکستان میں موجود پشتونوں کی تمام آبادی ‏کو شامل کیا جائے نہ کہ چند قبائل کو۔ آپ کا حساب نہ شماریات، نہ الجبرا اور نہ منطق کے اصولوں پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی سماجی و سیاسی علوم کے دائرے میں آتا ہے ‏چونکہ آپ پاکستان کی ۱۹۷۳ کے آئین پر یقین رکتھے ہیں اور اس کے آجکل داعی بھی ہیں۔ پاکستان کی آئین میں فنانس بل یا بجٹ آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے اگر پاکستان کے آئین کو بھی بنیاد بنایا جائے تب بھی بلوچستان میں آپ کی برابری کی بنیاد کی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‏بروقت بلوچستان پر پنجابی استعمار کا اختیار ہے اور ان کی مرضی اور منشا کے بغیر بلوچستان کے نامزد حکمران اپنی ناک بھی نہیں کجھا سکتے۔ لیکن اگر تاریخ کے کسی مقام پر بلوچوں نے اپنے وطن پر اپنا اختیار قائم کیا اور پشتون یوں ہی ہمارے ساتھ رہے تو یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں۔ کہ بلوچ انکے قومی حق اداریت کو تسلیم کریں گے اور ان کی زمین اور ان کے وسائل پر ان کے اختیار کو۔

وحید بلوچ نے کہا کہ ‏آپ ہی کے برابری کے نعرے کی بنیاد پر پاکستان میں مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی کو شکست دینے کیلئے جنرل ایوب نے پئیرٹی کا فارمولا عین اسی طرح گڑھ کر مغربی پاکستان کی اقلیتی حیثیت کو مشرقی پاکستان کے اکثریت کے برابر کردیا تھا جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی شکل میں نکلا۔ ‏آپ کے اس فروعی نعرے کا نتیجہ بھی ان ہمسایہ اور برادر قوموں کے مابین مخاصمت کی شکل میں نکلے گا جس کا فائدہ صرف اور صرف پنجابی استعمار کو ہوگا یا آپ کو اسمبلی کی دوچار ممبران کی جیت۔ ‏اس لئے تاریخ کے اس دوراہے پر جب بلوچ اپنی قومی سلامتی اور بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے آپ جیسے پشتون رہنماء کے اسطرح کے غیر ذمہ دارانہ اور سطحی بیانات موجودہ حالات کے متقاضی نہیں۔