ریڑھ کی ہڈی ۔ ظهیر بلوچ

222

ریڑھ کی ہڈی

تحریر: ظهیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریڑھ کی ہڈی انسانی جسم میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر انسانی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو تو انسان اپنے عمل کو صحیح طریقے سے انجام نهیں دے سکتا اور ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو انسان ہمیشه کے لئے عمل کے قابل نهیں رہتا. اسی طرح ایک قوم بھی انسانی جسم کی طرح ہے اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی اسکے طالب علم‌ ہوتے ہیں. اگر طالبعلم کمزور هونگے تو قوم کا مستقبل تاریک ہوگا اور اگر طالب علم مضبوط هونگے تو قوم کا مستقبل روشن ہوگا۔.

ایک غلام قوم کی بات کریں تو کسی غلام قوم کے مختلف شعبه جات سے تعلق رکھنے والے افراد ہی اس کا اہم اثاثه ہوتے ہیں لیکن بد قسمتی هے که بلوچ قوم کے دیگر شعبه جات سے تعلق رکھنے والے کرداروں نے بلوچ قومی تحریک کے لئے وه کردار ادا نهیں کیا جو طالب علموں نے ادا کیا. بلوچ قومی تحریک کے اهم کردار ڈاکٹر الله نزر بلوچ، بشیر زیب، خلیل بلوچ اور دیگر رہنماء تمام اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی طالب علم سیاست کا حصه رہے اور آج قومی تحریک میں اہم کردار ادا کررہے ہیں.آج بی این ایم سے لیکر تمام سیاسی و مسلح تنظیموں کے لیڈران و ممبران کا تعلق طلبه سیاست سے رہا ہے. ایسے لوگ قلیل‌ تعداد میں موجود ہے جنهوں نے طلبه سیاست میں وه کردار ادا نهیں کیا لیکن دور موجود میں ادا کررہے ہیں لیکن طالب علموں کا کردار ہر دور میں نمایاں اور موثر رہا هے.

وضاحت کرنا ضروری هے که ایک غلام قوم کے طالب علم کا حقیقی مقصد یه ہوتا هے که وه اپنی قومی غلامی کو سمجھے اور قومی غلامی کو مد نظر رکھ کر اپنی تعلیمی حکمت عملی کا تعین کریں کیونکه کل یهی طالب علم‌ بلوچ قوم کے سافٹ پاور اور رہنما ء ہے۔

جب تک غلام قوم کا طالب علم اپنے غلامی کا احساس نهیں رکھتا اور اسی بنیاد پر حکمت عملی کا تعین نهیں کرتا تو یه قومی غلام‌ کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔

حالیه دور کی بات کریں تو ریاست مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال میں لاتے ہوئے بلوچ طالب علموں کو سطحی مسلئوں میں الجھا کر انهیں حقیقی راستے سے دور کرنے کی کوششوں کو تقویت فراهم کررہی ہے،بلوچ کهیں بھی زیر تعلیم ہے مختلف مسائل کا سامنا روز کررها ہے، کبھی سهولیات کی عدم دستیابی کے خلاف،کبھی تعلیمی اداروں میں جبری گمشدگی کے خلاف،کبھی انتظامیه کی غیر قانونی احکامات کے خلاف اور کبھی ریاستی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہا ہے۔

ریاست یه پالیسیاں استعمال میں لاکر بلوچ طالب علموں کو سطحی مسائل میں الجھا کر حقیقی راستے کی جانب روڑے اٹکانے کی کوشش کررہی ہے تاکه بلوچ قوم کے طالب علم‌سهولیات کا رونا روتے ہوئے بس احتجاج کی سیاست پر اپنا قیمتی وقت ضائع کریں اور اپنے دیگر امور کو چھوڑ کر صرف نعروں پر گزاره کریں.

احتجاج ہر کسی کا حق ہے اور احتجاج ہی وه ذریعه هے جس کی بنیاد پر کوئی بھی پرت اپنی آواز کهیں بھی پهنچا سکتا هے لیکن یهاں اهم مسله‌ یه ہے که جب بلوچ طالب علم کسی مسلئے پر احتجاج کرتے ہیں اور وه مسله حل‌ہوجاتا هے لیکن ایک ہفتے یا ایک مهینے بعد دوسرا مسله سر اٹھاتا ہے جس کی وجه سے طالب علم دوباره احتجاج کی جانب چلے جاتے ہیں جس سے نه صرف ان کی‌ تعلیمی سرگرمیاں متاثر هوتی هے بلکه ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہے جس کا مطلب واضح هے که تعلیمی اداروں میں سیاسی سرگرمیوں کا ماند پڑجانا قومی مستقبل کی تباہی ہے اور بلوچ قوم اس تباہی کا متحمل نهیں هوسکتا۔
’’حالیه دنوں بلوچ پروفیسر منظور بلوچ کو تربت یونیورسٹی میں لیکچر پروگرام کی اجازت نه دینا ‘‘بلوچ طالب علموں کی حراسگی اور دیگر واقعات ایک المیه ہے اوراس سے بڑا المیہ درس و تدریس کے پیشے سے وابسطہ لوگوں کی خاموشی ہےکہ انہوں نے ایک پروفیسر کی حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھائی جب تک بلوچ قوم غلام ہے یه المیے ہوتے رہینگے۔

ایک مسله جنم لیگا وه حل ہوگا اور ایک نیا مسله ابھر کر سامنے آئیں گا جو ریاستی پالیسیوں کا حصه هیں اور مستقبل میں مزید شدت پیدا کی جائیگی تاکه بلوچ طالب علم کنفیوژن کا شکار ہو کر اپنے حقیقی مسائل کو بھول جائیں.

بلوچ طالب علموں کو یه سمجھنا چاہئیے که ریاستی پالیسیوں کو کاونٹر کرنے کے لئے کاونٹر پالیسی کیا اختیار کرنی چاہئیے؟

کیا احتجاجی روایتی سیاست سے ہم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب هونگے؟بلوچ طالب علموں نے تعلیمی مسائل اور انتظامی مسائل پر اتنے احتجاج کئے ان کا نتیجہ کیا نکلا؟صرف وقتی طور پر کچھ سطحی مسائل حل ہونے کے
کیا ان احتجاج کے بعد کوئی اور مسله ریاست کی جانب سے کھڑا نهیں کیا گیا؟
کیا احتجاج کے بعد سماج کے کسی پرت کی جانب سے طالب علموں کی حمایت میں آواز اٹھی؟
کیا جامعات اور کالجز میں ہونے والی احتجاج پر کسی پروفیسر نے طالب علموں کی حمایت کی یا ان کا ساتھ دیا؟ کیا جامعات میں کام کرنے والے طالب علموں کی حمایت میں کبھی کھڑے هوئے؟
کیا میڈیا نے کبھی بلوچ طالب علموں کی آواز سے آواز ملایا؟
سماج کے کسی طبقے کی طرف سے طالب علموں کی حمایت میں کوئی پریس کانفرنس یا پروگرام منعقد کیا گیا؟
ان تمام سوالوں کا جواب ہے نهیں آج تک کسی بھی طرف سے طالب علموں کی جبری گمشدگی اور دیگر مسائل کو کبھی اجاگر نهیں کیا گیا تو طالب علموں کو چاہئیے که کچھ ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جس سے آپکی آواز سماج کے هر طبقے تک پهنچ جائیں اور آپ کی تعلیمی سرگرمیوں سمیت سیاسی سرگرمیاں بھی متاثر نه ہوں۔

اگر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو چھوڑنے کے بجائے طالب علم میڈیا ،پروفیسرز اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے مسائل سے آگاہی فراہم کرکے انہیں اپنے ساتھ ملا کر جدوجہد کریں۔پمفلٹ اور دیگر ذرائع کی مدد سے سماج میں اپنے لئے حمایت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔احتجاج کرتے وقت اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنے کے بجائے انتظامی سرگرمیوں کو معطل کرنے کی کوشش کریں۔
جب آپ احتجاج یا کسی پروگرام منعقد کرنا چاہئیے تو آپ کی آواز تمام طبقه سوشل میڈیا سمیت هر پلیٹ فارم پر اٹھائیں،طالب علم ریڑھ کی ہڈی ہے اس لئے اپنے تمام تر توجه رسمی و غیر رسمی تعلیم‌ پر دے کر ریاستی ان سازشوں کو ناکام بنائیں جو آپکو تعلیم و تعلیمی اداروں سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔