شہدائے زاہدان، مغربی بلوچستان سمیت یورپ میں مظاہرے

410

شہدائے زاہدان کی پہلی برسی کی مناسبت مغربی بلوچستان سمیت یورپ میں مظاہرے کئے گئے۔

ہفتے کے روز مغربی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے برلن، لندن، سوئیڈن میں مظاہرے کئے ، مظاہروں میں کرد اور اھواز کارکنان شریک تھے۔

مظاہرین نے عالمی طاقتوں سے بلوچ نسل کزی روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خواتین کے خلاف جرائم روکنے کا مطالبہ کیا۔

جبکہ زاہدان سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئے۔ شہدائے زاہدان اور ان کے خاندان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی ۔

تفصیلات کے مطابق شہدائے زاہدان کی یاد منانے کے لیے بلوچ عوام نے بلوچستان کے مختلف شہروں اور علاقوں میں ریلی نکال کر ایرانی فورسز کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرہ کیا گیا اور شہدائے زاہدان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ، جبکہ زاہدان میں جمعہ کی نماز کے بلوچ عوام نے بھر پور طریقے سے نعرہ بازی کی ۔

اس موقع پر فورسز کی فائرنگ سے زخمی اور گرفتاریوں کی اطلاعات ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 30 ستمبر کو زاہدان میں قابض آرمی آئی آر جی سی اور سیکورٹی فورسز نے زاہدان میں بلوچ مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 100 سے زائد بلوچ جانبحق ہوئے تھے اور 300 سے قریب بلوچ زخمی ہوگئے تھے، زخمیوں میں سے درجنوں بعد میں زخموں کی شدت نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔

یہ مظاہرہ اس وقت شروع ہوا جب چابہار میں ایرانی پولیس نے ایک 16 سالہ بلوچ بچی ماہو کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔

دریں اثنا زاھدان جامعہ مسجد کے پیش امام مولوی عبدالحمید اسماعیل زہی نے 30 ستمبر 2022 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی دستوں کے ہاتھوں زاہدان کے عوام کا قتل عام کو ایک خوفناک سانحہ اور انسانی جرم قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس دن 100 سے زیادہ لوگ شہید اور 300 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے جن میں سے کئی کے اعضاء کاٹنا پڑے۔ اس وخشیانہ قتل عام کے دوران کئی شہری اپنی آنکھیں بھی گنوا بیٹھے اور نابینا ہو گئے اور بہت سے لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہوگئے اور اپاہج ہو گئے۔

بلوچ قوم اور شہداء اور زخمیوں کے اہل خانہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مولوی عبدالحمید نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ ناقابل فراموش ہے اور عوام کا مطالبہ ہے کہ بلڈی فرائیڈے قتل عام کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ گزشتہ سال کے دوران ان لوگوں نے کوئی غیرمعمولی مطالبہ نہیں کیا تھا صرف اپنے حقوق کا نعرہ لگایا تھا۔

مولوی عبدالحمید نے یہ بھی کہا کہ اسلامی جمہوریہ میں جج آزادانہ طور پر کام نہیں کرتے اور مختلف دھڑوں کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہم اور بہت سے لوگ اور شہداء کے ورثہ کا خیال ہے کہ ایرانی عدلیہ کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بلوچ عوام اپنے شہید بچوں کا مقدمہ تک درج نہیں کراسکتے وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور پیسہ دینے سے مطمئن نہیں ہیں۔ بہت سی عورتیں بیوہ ہو چکی ہیں اور بہت سے بچے یتیم ہو چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پیسہ اور مادی مدد ان کے دلوں کو سکون نہیں دے سکتی۔