اقتدار کے ایوانوں میں ۔ ظهیر بلوچ

183

اقتدار کے ایوانوں میں

کتاب تجزیہ : ظهیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ کتاب پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کی کہانی ہے جو اس کے سیاسی مرید بلوچ نیشنلزم کی بنیاد پر وجود میں آنے والے بی ایس او کے عہدیدار اور اینٹی بی ایس او تشکیل دینے والے گروہ کے ایک ذمہ دار عبدالرحیم ظفر کی تحریر کردہ ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی روداد بیان کرتی ہے بلکہ یہ کتاب پاکستانی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں اور طاقت کے اہم مراکز فوج کے کردار کو بھی بیان کرتا ہے۔

اقتدار کے ایوان ایک کمزور انسان کو طاقتور بنادیتے ہیں اور اسی طاقت کے بل بوتے پر وه کچھ حاصل ہوتا ہے جو آپ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ بلوچستان جو ایک پسماندہ و مقبوضہ علاقہ ہے وہاں کسی کو سرکاری عہدے و مراعات کجا ایک جگہ سے دوسری جگہ کی مسافت طے کرنے کے لئے آرمی کی اجازت لازمی ہے وہاں سے ایک انقلابی ترقی پسند سوچ رکھنے والے اور اینٹی سردار بی ایس او کے عہدیدار کو عہدے تقویض کئے جائے مراعات سے نوازا جائے جس سے یہ بات عیاں ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں بلوچستان کا مسلہ احساس محرومی کا مسلہ ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا کہ احساس محرومی کے اصل اسباب کیا ہے اگر پاکستان بلوچستان پر قبضہ نہ کرتا تو آج بلوچستان احساس محرومی کا شکار ہوتا۔

عبدالرحیم ظفر صاحب اس کتاب میں اس دور کی سیاسی تاریخ کو بیان کررہے ہیں جب بلوچستان بھٹو کے ظلم و جبر کا شکار ہے لیکن موصوف متعدد بار یہ بات دہرارہے ہیں کہ بلوچستان کا مسلہ احساس محرومی کا ہے اور یہ احساس محرومی چند نوکریوں اور مراعات کے عوض ختم ہوگی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بلوچستان کے اصل مسائل سے روگردانی کررہے ہیں جو نوآبادیاتی و بقاء کا مسلہ ہے۔ رحیم ظفر صاحب اچھی طرح واقف ہے کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور اس مقبوضہ علاقے پر پاکستان کا قبضہ ہے اور اس قبضے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور اس وقت بھی جاری تھی جب بھٹو اقتدار میں تھے اور مصنف اسی بھٹو کے دور میں او ایس ڈی کے عہدے پر فائز تھے لیکن پتہ نہیں موصوف کیوں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں۔

موصوف کتاب میں ایک جگہ کہتے ہیں جب انہوں نے بلوچستان میں گندم کی قلت کا مسلہ اٹھایا تو انہوں نے میری شکایت پر غور کرکے بلوچستان کے ساحلی علاقے میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گندم کی بوریاں پھینکی جو پاکستان اور بلوچ کے رشتے کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ نوآبادیات میں ہمیشہ آقا اپنے غلاموں کو آپس میں دست و گریباں کرنے کے لئے ایسے عمل کا مرتکب ہوتا ہے لیکن ترقی پسند ذہنیت رکھنے والا ایک سیاسی کارکن اس بات پر فخر محسوس کرتا ہے کہ ہمارے مسائل کو بھٹو صاحب نے حل کیا۔

قادیانی جن کی پوری دنیا میں آبادی کا بیشتر حصه پاکستان میں رهائش پذیر هے انهیں سوشلزم کے دعویدار بھٹو نے کافر قرار دیا اور پیپلز پارٹی آج بھی اس بات کا کریڈٹ لیتی هے لیکن موصوف کهتے هیں که بھٹو پر آرمی اور مذهبی جماعتوں کا دباؤ تھا اور پورا الزام بھٹو پر لگا لیکن هم آج یه سمجھنے سے قاصر هے که اگر آرمی کا دباؤ تھا تو پیپلز پارٹی اس بات کا کریڈٹ کیوں لیتی هے.کیونکه قادیانیوں کو کافر قرار دیکر امریکه جنرل ضیاء کے ذریعے ایٹمی میزائل بنانے کی سزا دینا چاهتی هے حالانکه پاکستان کا میزائل پروگرام امریکی حمایت کے بغیر ناممکن هے.
پاکستان کے تمام مقتدر ادارے اور محکمے بشمول پیپلز پارٹی همیشه بلوچستان کی پسماندگی کو سرداروں سے نتھی کرتے هیں لیکن بقول مصنف بلوچستان میں نیپ کی حکومت کے خاتمے کے باوجود بھی پیپلز پارٹی قدم جمانے میں ناکام هوئی کیونکه پیپلزپارٹی نے بھی وهاں عهدے اور اختیارات سرداروں اور نوابوں کے حوالے کردئیے هیں جس سے یه عیاں هوتا هے که بلوچستان کے سردار ریاستی آله کار هے جبکه بلوچستان کے عوام ریاستی آله کاروں کے بجائے اپنی زمین اور اپنی ثقافت سے محبت کرتے هیں اور انهی سیاست دانوں کو اپنا رهنما ء تصور کرتے هیں جو بلوچستان میں ریاستی پالیسیوں کو رد کرتے هوئے مزاحمت کا راسته اختیار کرتے هیں.

مصنف صفحه نمبر 99 پر پاکستانی عدالتی نظام پر تنقید کرتے هوئے کهتے هیں که میں نے ایک بزرگ سے پوچھا تم عدالت کیوں جاتے هو تم لوگوں کا فیصله‌ سردار یا نواب کرتا هے .اس پر وه بولے دوسرا فریق بد بخت عدالت گیا هے اور مجھے بھی خوار کیا هے.ایک سال سے پیشیاں بھگت رها هوں، عدالت والے تاریخ پر تاریخ دے رهے هیں لیکن فیصله نهیں کرتے. مذید اس بزرگ نے کها که تم پڑھے لکھے لوگ کهتے هو سردار یا نواب خراب هیں ظلم کرتے هیں لوگوں کو دبا کر رکھتے هیں انصاف نهیں کرتے تو دوسری طرف کونسی شهد کی نهریں بهه رهی هیں.

مصنف اپنے کتاب میں اس سچائی سے بھی پرده اٹھاتے هیں که پاکستان کے سیکیورٹی ادارے رهائشی اور کمرشل اسکیموں کے پیچھے پڑے هوئے هیں.کوسٹ گارڈ ، نیوی، فضائیه سب مختلف تجارتی منصوبوں کی آڑ میں زمینوں پر قبضه کررهے هیں اور اپنی جیب گرم کرنے کے لئے ڈیزل اور دیگر اسمگلنگ کرنے والے لوگوں کو نشانه بنائے هوئے هیں.بزی واقعه هو یا گوادر پی سی هوٹل فدائی سب کے تانے بانے پاکستانی مقتدره ایران سے جوڑ کر اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کررهے هیں.

اس کتاب کا مطالعه ان باتوں سے بھی پرده اٹھاتا هے که سیاست اور سیاسی حکمران کبھی سچ کو برداشت نهیں کرسکتے کیونکه عبدالمالک ابڑو جنهیں بھٹو کے جلسے میں سچ بولنے کی پاداش میں گرفتار اور پھر قتل کیا گیا جبکه یه بات بھی عیاں هوتی هے که پاکستانی سیاست میں مذهب کا استعمال متواتر هوتا هے که 1977 کے انتخابات میں بھٹو پر دھاندلی کا الزام کو ایک نیا رنگ دینے کے لئے یه تاثر ابھارا گیا که انتخابات کا بائیکاٹ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجه سے کیا گیا هے جبکه نظام مصطفے کے نام پر مذهب کو ایک ڈھال کے طور پر سیاسی اعمال کے طور پر استعمال کیا گیا.

اس کتاب میں مصنف صفحه 196 میں رقمطراز هے که بھٹو کهتا هے میرے فیصلے کے سامنے اگر کوئی رکاوٹ بنتا هے تو پھر اپنی تباهی کا ذمه دار خود هوگا اور عملا بھی بھٹو ایک ظالم سیاست دان تھا جس نے نه صرف سندھ و بلوچستان و پختونستان کے قوم پرستوں کو دبایا بلکه بلوچستان بھر میں فوجی بربریت سے خواتین کو بھی نهیں بخشا گیا.
تاریخ کے اوراق بتاتے هیں که بھٹو خاندان انگریزوں کے غلام تھے ان کے خاندان کے بزرگوں کو انگریز سرکار کی جانب سے سر کا خطاب عطا کیا گیا کیونکه انگریز انهیں سر کا خطاب نوازتی هے جو ان کے حکم کی تحمیل کے لئے اپنے قوم سے هی غداری کرتے هیں اس بات کا اندازه مصنف کے کتاب کے صفحه نمبر 163 سے عیاں هوتا هے که بھٹو غلامانه ذهنیت کے انسان تھے اور اس واقعے سے ثابت هوتا هے که بھٹو انگریزوں کا ایک آله کار تھا.

مصنف کهتے هیں که میر عبدالنبی جمالی نے بھٹو سے گزارش کی جیکب آباد کا نام قدیمی نام پر رکھیں جو خان گڑھ هے تو بھٹو نے کها که جیکب سرد علاقے کا آدمی تھا اس دوزخی گرمی میں بیٹھ کر اس شهر کو آباد کیا ،ریلوئے لائن بنوایا اور اسکی قبر بھی یهیں هے.اس شهر کا نام هم کیسے تبدیل کرسکتے هیں.هم لوگ کون هوتے هیں تاریخ کو بدلنے والے.
.حروف آخر

عبدالرحیم ظفر ایک زیرک سیاستدان اور بی ایس او کے بنیادی رکن تھے جو بعد میں قومی پرستی کی سیاست کو خیر باد کهه کر بھٹو کی پیپلز پارٹی میں سوشلزم اور بھٹو کی چمک دیکھ کر شامل هوئے لیکن حقیقت یه هے که پاکستانی مقتدره کسی بھی شکل میں هو وه بلوچ کا دشمن هے کیونکه پاکستانی فوج سے لیکر بھٹو تک اور بھٹو سے لیکر موجوده دور تک بلوچستان ایک اندوهناک وقت سے گزر رها هے.جبری گمشدگی، مسخ شده لاشیں پاکستانی ریاست کے ماتھے پر ایک کلنک کا دھبه هے جو کبھی نهیں دھل سکتی.

مصنف نے لیاری میں بھٹو کے مثبت کردار کو تو اجاگر کیا هے لیکن بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں منشیات سے لیکر بلوچ نسل کشی، گینگ وار کی تشکیل یه سب پی پی پی کے سیاه کارنامے هیں جنهیں کبھی فراموش نهیں کیا جاسکتا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔