ایمان مزاری اور علی وزیر عدالت میں پیش، ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

427

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے میں مبینہ نفرت انگیز تقاریر کرنے پر اسلام آباد پولیس نے سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحب زادی اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری اور پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر سمیت متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اسلام آباد پولیس نے بھی سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور ایمان مزاری کو گرفتار کرنے کی تصدیق کی ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کو عدالت میں پیش بھی کر دیا گیا ہے۔

ایمان مزاری اور علی وزیر کے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کے ایک اور مقدمے کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئیں جس پر عدالت نے دونوں کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے ان کیسز میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق دونوں کو ایک روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے جب کہ پیر کو انہیں متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

پولیس حکام کے مطابق دونوں ملزمان اسلام آباد پولیس کو تفتیش کے لیے مطلوب تھے۔

ایمان مزاری اور علی وزیر کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ایمان مزاری دہشت گردی کے مقدمے میں ایک دن یعنی پیر کو تھانہ ویمن پولیس میں رہیں گی۔

عدالت نے علی وزیر کا دہشت گردی کے مقدمے میں ایک دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔ دوسرے مقدمے میں بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں علی وزیر کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا۔

اسی طرح ایمان مزاری کا بھی بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کارِ سرکار میں مداخلت کے مقدمے میں جوڈیشل ریمانڈ بھی منظور کیا گیا۔

ایمان مزاری کی والدہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پوسٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ خواتین پولیس اور سادہ لباس لوگ ان کے گھر کا دروازہ توڑ کر ان کی بیٹی کو لے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی خواتین اہلکار ایمان مزاری کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون بھی ساتھ لے گئی ہیں۔

شیریں مزاری کا مزید کہنا تھا کہ اہل کار ان کے سیکیورٹی کیمرے، ایمان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون ساتھ لے کر گئے ہیں۔

خیال رہے کہ ایمان مزاری پر الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ پی ٹی ایم کے جلسے میں خطاب کے دوران انہوں فوج کے خلاف “سخت اور منفی الفاظ “کا استعمال کیا تھا۔

شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا ہے کہ اہل کاروں سے وارنٹ کا پوچھا جو انہوں نے نہیں دکھائے۔ انہوں نے پورے گھر کی تلاشی لی۔ گھر میں ہم صرف دو خواتین تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بیٹی اپنے رات کے کپڑوں میں تھی۔ اس نے اہل کاروں سے کہا کہ انہیں کپڑے بدلنے دیں لیکن وہ اسے گھسیٹ کر باہر لے گئے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ “یہ یقیناً کوئی وارنٹ یا کوئی قانونی طریقہ کار نہیں، ریاستی فاشزم ہے اور یہ ایک طرح سے ایک اغوا ہے۔”

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے ایمان مزاری کی گرفتاری کے حوالے سے کہا ہے کہ تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی ہے۔

سوشل میڈیا پر ایمان مزاری کی تقریر کے کچھ حصے وائرل ہیں بالخصوص ایک حصے میں وہ فوج کو دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف نعرے لگوا رہی تھیں۔

سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور ایمان مزاری کی تقریر کے حصے چلا کر بعض حلقوں کی طرف سے ان پر شدید تنقید کی جا رہی تھی اور ان کا موازنہ دیگر واقعات سے کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

ترجمان پولیس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پولیس کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جاری خبر کو ہی درست تسلیم کیا جائے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی پولیس اسٹیشن سے بیان دینے کا مجاز نہیں ہے۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق علی وزیر کو تھانہ ترنول پولیس نے کار سرکار میں مداخلت پر گرفتار کیا ہے۔

اسلام آباد میں مقدمہ درج

اسلام آباد کے تھانہ ترنول میں درج مقدمہ بھی سامنے آگیا ہے۔ جس میں پی ٹی آئی قائدین سمیت ایمان مزاری پر پولیس پر حملہ آور ہونے اور املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ادھر سوشل میڈیا پر ’ریلیز ایمان مزاری‘ اس وقت ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے جس کے ساتھ علی وزیر اور دیگر افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

سماجی رہنما ماروی سرمد نے پوسٹ میں ایمان مزاری کی گرفتاری پر شدید تنقید کی اور کہا کہ کسی کے گھر میں بغیر وارنٹ کے داخل ہونا ایک غیر قانونی عمل ہے۔

<

ایک صارف لطیف بلوچ نے کہا کہ ایمان مزاری کو جبری لاپتا افراد کے لیے مؤثر آواز اٹھانے کی سزا دی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی ایم نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پولیس نے اس کے لیے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے بعد نگراں وفاقی وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی ایک بیان میں کہا تھا کہ پی ٹی ایم کے عہدیداروں کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں اور اسلام آباد کے داخلی مقام ترنول پر جلسہ کیا جائے گا۔

بعد ازاں ، ترنول میں جلسہ ہوا اور وہاں منظور پشتین سمیت کئی رہنماؤں نے تقاریر کی تھیں جن میں علی وزیر اور ایمان زینب مزاری بھی شامل تھیں۔