افغان موقف کچھ بھی ہو، پاکستان’دہشت گردی‘ کا خاتمہ چاہتاہے: وزیر دفاع

180

وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دوحہ معاہدے کے حوالے سے افغان طالبان کے حالیہ بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ افغانستان کے موقف سے قطع نظر ’پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے‘ کے لیے پرعزم ہے۔

وزیر دفاع نے اتوار کی رات اپنے ٹوئٹر پیغام میں مزید کہا کہ ’یہ اس بات سے قطع نظر ہے کہ کابل اپنی سر زمین سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کی خواہش رکھتا ہے یا نہیں۔‘

خواجہ آصف نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دوحہ معاہدہ طالبان اور امریکہ کے درمیان تھا، نہ کہ پاکستان کے ساتھ اور ’اس لیے پاکستان کے حوالے سے طالبان حکومت کی پالیسی مختلف ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاست دان اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ذبیح اللہ مجاہد کے بیان پر ردعمل میں اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ، افغان طالبان کو کچھ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کا پابند بناتا ہے اور کچھ کے خلاف نہیں؟‘

فروری 2020 میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے ذریعے نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا سمیت اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ ’افغانستان کی سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔‘

گذشتہ ہفتے افغان طالبان کے اقوام متحدہ میں نمائندے سہیل شاہین نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہے، اگر وہ پاکستان کے اندر ہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہے، ہماری نہیں۔‘

جس کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے (15 جولائی) کو کہا تھا کہ افغانستان نہ تو ہمسایہ ملک ہونے کا حق ادا کر رہا ہے اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

خواجہ آصف نے مزید کہا تھا کہ ’50 سے 60 لاکھ افغانوں کو تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 40، 50 سال سے پناہ میسر ہے۔ اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔‘

وزیر دفاع نے مزید کہا تھا کہ ’یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گا۔‘

اس سے قبل جمعے کو پاکستانی فوج کی جانب سے بھی ایک بیان میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ’افغان شہریوں کے ملوث‘ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے دو بڑے حملوں میں 12 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے، جس کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا ایک اہم پہلو ہے، جس کا تدارک ضروری ہے۔ ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز اس کا موثر جواب دیں گی۔‘

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی فوج کو دوحہ معاہدے کے مطابق عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔