افغانستان حملہ آور عسکریت پسندوں کو لگام ڈالے، پاکستان

449

پاکستان نے کابل حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اُن عسکریت پسندوں کو لگام ڈالے، جو مبینہ طور پر سرحد پار سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں اور جن کے خفیہ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔

پاکستانی فوج نے بتایا ہے کہ بدھ کو درجنوں عسکریت پسندوں نے شمالی علاقے چترال میں سرحدی چوکیوں پر حملہ کیا، جس میں چار فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسلام آباد نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق پاکستانی طالبان سے ہے اور ان کے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان کے کُنڑ اور نورستان صوبوں میں کی گئی تھی۔

 پاکستانی فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے بارے میں افغانستان کی حکومت کو بروقت آگاہ کر دیا گیا تھا۔

فوج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پاکستانی کمانڈوز نے پہاڑی علاقے میں کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد ان حملوں کو پسپا کر دیا، جن میں کم از کم بارہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم آزاد ذرائع سے ان فوجی دعوؤں کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

 جمعرات کو پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”پاکستان توقع کرتا ہے کہ افغان حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور دہشت گردوں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکے گی۔‘‘

چترال میں عسکریت پسندوں کے حملے اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہوئے، جس میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوجیوں اور افغان طالبان کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔

چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد علی نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”حملہ آوروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور وہ جدیدترین  ہتھیاروں سے لیس تھے۔ لیکن ہم حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے اور تقریباً چار گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس کارروائی میں سات فوجی اہلکار اور چالیس سے زائد عسکریت پسند زخمی بھی ہوئے ہیں۔

دریں اثنا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ چترال میں دو فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ تاہم پاکستانی طالبان کے ان دعوؤں کی بھی ابھی تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کی مغربی سرحدوں پر عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں پچاس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔