بولان میں جاری فوجی آپریشن میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی ایس او آزاد

166

‏بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس وقت بولان میں آمد و رفت کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں جس سے عام لوگوں کو ادویات سمیت بنیادی اشیا خریدنے کیلئے بھی جانے میں دوشواریوں کا سامنا ہے جبکہ مقامی آبادی کو ریاستی فورسز کی جانب سے تشدد، جبر اور جبری گمشدگیوں کا سامنا ہے۔ فوجی آپریشن میں اس وقت متعدد افراد اٹھائے گئے ہیں جبکہ پہاڑی علاقوں میں موجود چھوٹی بلوچ بستیوں کو فورسز نذر آتش کرکے عام آبادیوں کو نقل مقانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ریاست اپنے توپ خانوں سے اس وقت بلوچ بستیوں کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے مقامی افراد کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔ آپریشن کے نام پر فوج دراصل عام عوام کو اٹھانے اور قتل کرنے میں مصروف ہے اور گزشتہ سات دنوں سے آپریشن وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مختلف علاقوں کی ناکہ بندی اور علاقوں کو محاصرے میں کرنے کی وجہ سے انسانی بحران جنم لینے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

‏انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست کی فوجی آپریشن ہمیشہ عوام کے خلاف رہے ہیں۔ بلوچ مزاحمت کاروں سے لڑنے کے نام پر ریاست نے بلوچستان میں بلوچ عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دی ہے۔ کئی ہزار بلوچ اس وقت ریاست کی ٹارچر سیلوں میں قید اور کئی ہزار بلوچ جعلی مقابلوں میں قتل کیے گئے ہیں۔ حالیہ دنوں بولان کے مختلف علاقوں میں جاری آپریشن کا بنیادی مقصد عام عوام کو خوفزدہ کرنا ہے۔ بولان و سبی اور ہرنائی کے مختلف علاقوں میں جاری اس آپریشن میں ہزاروں فوجی اہلکار شامل ہیں جو مختلف علاقوں میں قتل و غارت میں ملوث ہیں۔ حالیہ دنوں مختلف علاقوں میں بارشوں کی وجہ سے عوام کو بنیادی سہولات کی شدید ضرورت پیش آ رہی ہے لیکن فوجی اہلکاروں کی سینکڑوں کی تعداد میں موجودگی اور رکاوٹوں و آمد رفت کے راستوں کو بند کرنے کی وجہ سے مزید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جبکہ اس آپریشن کے نام پر ہمیں خدشات ہیں کہ مزید افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر انہیں جعلی مقابلوں میں قتل کرکے انہیں مزاحمت کار کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ قابض پاکستانی ریاست کئی سالوں سے اس وطیرے کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ نسل کشی کو وسعت دیتی آ رہی ہے۔

‏انہوں نے آخر میں عالمی برادری کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ قابض ریاست یہ تمام کارروائیاں مختلف ممالک کی جانب سے ملنے والی فوجی امداد کی وجہ سے ممکن بنا رہی ہے۔ عالمی ملکوں کی جانب سے قابض ریاست کو یہ امداد دہشتگردی کے خلاف لڑنے کیلئے دیے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ریاست انہی فنڈز سے خطے بھر میں دہشتگردی پھیلا رہی ہے اور ان فنڈز سے بلوچ عوام کے خلاف جبر اور وحشت میں مصروف عمل ہے۔ عالمی اداروں کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ریاست دنیا میں دہشتگردی کے نام پر لینے والے فنڈز کو کہاں اور کس طرح استعمال کر رہی ہے اور یہ امداد فوری طور پر روکنا چاہیے۔