بی این پی آج سے بلوچستان میں پاکستان کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے گی – وحید بلوچ

674

بی ایس او کے سابق چئرمین اور سابقہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی وحید بلوچ نے بلوچستان کے نو منتحب گورنر کی تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی این پی کے ولی کاکڑ کے گورنر بننے سے دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں، بی این پی آج سے بلوچستان میں پاکستان کی مرکزی حکومت کے ایجنٹ کے طور پرکام کرے گی اور بلوچوں کے خلاف موجودہ فوج کشی میں برابر کی شراکت دار ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جانتے بوجھتے اس عہدے کو ایسے وقت میں قبول کرنا جب پاکستان ‏کی فوجیں بلوچستان کے چپے چپے میں بلوچ مرد، خواتین اور معصوم بچوں کو چن چن کر بلوچ قوم پرستی کی سزا، تشدد، قتل اور غیرقانونی جبراً گمشدگی کی شکل میں دے رہی ہے، سیاسی بے بصیرتی، موقع پرستی اور بلوچ قوم پرست سیاست سے بے راہ روی ہے۔ اس گناہ میں شرکت سے سردار عطااللہ مینگل کی روح تڑپ ‏رہی ہوگی اور جن کو اپنی وراثت سونپ گیا تھا ان کی اس موقع پرستانہ سیاست پر شرمندہ ہورہے ہونگے۔

‏انہوں نے کہا کہ جب مالک اور حاصل (مرحوم) نے وزارت اعلیٰ کے حصول کیلئے محمود خان اچکزئی کے سامنے سیاسی طور پر گھٹنے ٹیک کر ان کے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر شپ سونپ کر پشتونخواہ میپ کی بلوچ پشتون ‏صوبے کی الاپی راگ کو زندگی عطا کی تھی میں نے تب بھی نیشنل پارٹی کی اُس غیر سیاسی اور موقع پرستانہ فیصلے پر تنقید اور مخالفت کی تھی۔

“آج بی این پی نے اسی عمل کو دوہرا کر بلوچستان کو سیاسی طور پر تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ مجھے نہ ولی کاکڑ سے کوئی پرخاش ہے بلکہ میں واحد شخص تھا جس نے برملا ساجد ترین اور ولی کاکڑ کو سینیٹر بننے کی تجویز دی تھی اور نہ ہی بلوچستان کے پشتون ‏برادری سے کوئی ان بن یا تعصب ہے بلکہ میں ان کو بلوچستان کا شہری سمجھتا ہوں اور بلوچوں نے ہمہ وقت اپنا لقمہ بھوک افلاس اور غلامی کے باوجود ان کے ساتھ بانٹا ہے اور ان کے ہر غم اور خوشی میں شریک رہے ہیں باوجودیکہ پشتونخوامیپ جیسی جماعتوں اور اشخاص کی جانب سے اس بھائی چاری کے رویے ‏کو کمزوری سمجھ کر مخاصمانہ، متشدد انہ اور متعصبانہ رویہ اپنا کر سیاسی موقع پرستی کا مظاہرہ کیاجاتا رہا ہے۔”

انکا کہنا تھا کہ ‏بلوچستان میں سرکار پاکستان نے اس سے قبل گورنر پنجابی، مہاجر، خیبر پختونخواہ سے درآمد پشتون اور ہزارہ برادری سے تعینات کی گئی ہیں جو ہماری یعنی بلوچوں سیاسی بے اختیاری اور ‏اور بے واکی کی غماز رہی ہیں لیکن جب اس اختیار کو آپ کو استعمال کرنے اور چننے کی اجازت دی جائے اور آپ بھی وہی کچھ کریں جو بلوچوں کے ساتھ ہوتا آرہا ہے اغیار اور قابض کا ہاتھ بٹائیں تو تاریخ کے اوراق میں گنہگار ضرور ٹہریں گے۔

“‏بی این پی کی ۲۰۲۳ کی موجودہ گورنر شپ اور ‏نواب اکبر خان کی ۱۹۷۳ کی گورنرشپ میں کافی مماثلت ہے۔ دونوں ادوار میں بلوچستان میں فوج کشی۔ دونوں ادوار میں مرکزی حکومت کا نمائندہ ہونا اور کاروائیوں کی سرپرستی۔”

‏وحید بلوچ نے کہا کہ اگر نواب بکٹی مورد الزام و معتوب رہے تواختر مینگل بھی اسی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ نواب بگٹی نے تو اپنی جان دے کر کفارہ ‏ادا کیا لیکن اختر مینگل کو کفارہ کا موقع ملے گا یا نہیں فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔