عبدالحفیظ زہری کیساتھ کیا ہوا؟ – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

643

عبدالحفیظ زہری کیساتھ کیا ہوا؟

ٹی بی پی فیچر رپورٹ
تحریر۔ فتح بلوچ

رواں سال 3 فروری کو انسداد دہشت گردی عدالت کراچی کے جج محمد یاسین قادری نے عبدالحفیظ ولد محمد رمضان پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہونے پر انہیں باعزت بری کردیا۔

عبدالحفیظ کراچی سنڑل جیل میں قید تھے، جب انکے خاندان کے افراد عدالتی حکم نامہ لے کر جیل سے اپنے بھائی کو تحویل میں لے کر باہر نکلے تو ایک سفید ویگو گاڑی نے ان کا راستہ روک لیا اور عبدالحفیظ کو اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش کی۔

جس کے بعد انکی بہنیں اور دیگر خاندان کے افراد نے سخت مزاحمت کی۔ مسلح افراد نے ان پر گولیاں چلائیں، خواتین کو لاتیں ماری گئیں، گالیاں دیں اور بال کھینچے لیکن بی بی فاطمہ نے اپنے گمشدہ، گرفتار بھائی کو دوبارہ لاپتہ ہونے نہیں دیا۔

مسلح افراد نے مزاحمت دیکھ کر بھاگنے سے پہلے عبدالحفیظ کو جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہوئے شدید زخمی کردیا۔

سوشل میڈیا میں ایک سے زائد وائرل وڈیوز میں ان مناظر کو دیکھا جاسکتا ہے۔

عبدالحفیظ دبئی سے کراچی کیسے پہنچا؟

عبدالحفیظ کو گزشتہ سال 27 جنوری کی شب کو اس وقت ان کے گھر کے سامنے کی پارکنگ سے متحدہ امارات کے خفیہ اداروں نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا، جب وہ کام سے واپس گھر آ رہے تھے۔

بعد میں پتہ چلا کہ انھیں امارتی خفیہ پولیس نے پاکستانی حکام کے حوالے کردیا ہے لیکن کس جرم میں یہ نہیں بتایا گیا۔

ایک طویل عرصے تک پاکستان میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ حفیظ کے خاندان نے پتہ لگانے کے لیے پاکستان میں ہر اس در پر دستک دی جہاں تک انکا بس چلا، آخرکار تین مہینے بعد ان کا سراغ ملا۔

بعد ازاں انکے خاندان نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی جو کہ 29 مارچ 2022 کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کی گئی۔

گذشتہ سال اپریل کو جب ان کی گمشدگی کی درخواست کی سماعت ہوئی تو ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ انھیں سی ٹی ڈی نے کراچی سے گرفتار کیا ہے اور انھیں سینٹرل جیل کراچی منتقل کیا گیا ہے۔

عبدالحفیظ کے خلاف سی ٹی ڈی تھانہ ضلع جنوبی کراچی میں سندھ اسلحہ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ان کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق ان کو 31مار چ 2022 کو مبارک شہید روڈ سے گرفتار کیا گیا اور ان سے ایک 30 بور کا پسٹل اور گولیاں برآمد کی گئیں۔

جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں اس سلسلے میں 14 اپریل کو جو جواب جمع کیا گیا، اس کے مطابق لاپتہ عبدالحفیظ کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف دو دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

تاہم انکی بہن نے کہا کہ ان کا بھائی بے قصور ہے اور ہمیں توقع ہے کہ عدالتوں سے ہمیں انصاف ملے گا اور بھائی کو رہائی ملے گی اور یہی ہوا حفیظ جھوٹے الزامات سے بری ہوگیا۔

ماضی میں حفیظ زہری کے خاندان پر کیا گذری؟

عبدالحفیظ زہری کی جبری گمشدگی و تشدد اس کے خاندان کیلئے پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک دہائی قبل وہ جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو سہہ چکے ہیں۔

حفیظ زہری کے جبری گمشدگی سے قبل ان کے رشتہ دار، انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کو 26 دسمبر 2018 کو متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ کیا گیا۔ راشد حسین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انہیں چھ مہینے جبری لاپتہ رکھنے کے بعد متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے حکام نے قانونی طور پر پاکستان منتقل کردیا تھا، جس کے بعد سے وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

بعدازاں انکے داماد عبدالحمید زہری کو 10 اپریل 2021 کو کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکا ہے۔

جبکہ ایک دہائی قبل خضدار سے حفیظ زہری کے 14 سالہ بھائی مجید زہری کو 2010 میں جبری گمشدگی کے بعد قتل کردیا گیا تھا اور ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ اس واقعے کے دو سال بعد 2012میں حفیظ زہری کے والد، معروف تاجر حاجی رمضان زہری کو خضدار بازار میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

مذکورہ دونوں افراد کے قتل کے واقعات میں سیاسی و سماجی جماعتیں پاکستانی فوج و انکی تشکیل کردہ مسلح جھتوں کو ملوث قرار دیتے ہیں۔

عبدالحفیظ اب کہاں ہے؟

عبدالحفیظ زہری کراچی میں زخمی حالت میں اپنے بہن کے گھر میں بند ہیں، انکی بہن فاطمہ بلوچ کہتی ہیں کہ خفیہ ادارے انکے بھائی کو پھر سے اغواء کرنے کی کوشش کرینگے-

فاطمہ حمید کے مطابق گذشتہ دنوں سینٹرل جیل کراچی سے رہائی کے بعد سفید ویگو گاڑی میں سوار خفیہ اداروں کے مسلح اہلکاروں نے عبدالحفیظ کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی کوشش کے دؤران مزاحمت پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا اس وقت حفیظ زہری اور انکے چھوٹے بھائی شدید زخمی حالت میں ہیں جبکہ انہیں مجبوراً طبی امداد کے لئے اسپتال بھی منتقل نہیں کیا جاسکتا-

فاطمہ حمید کے مطابق گذشتہ روز جب لواحقین نے خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے اپنے بھائیوں کو چھڑا کر زخمی حالت میں اسپتال منتقل کرنا چاہا بھی تو مذکورہ ویگو گاڑی اور مسلح اہلکار انکا پیچھا کرتے رہے، اب بھی عبدالحفیظ اور انکے دیگر رشتہ دار تشدد کے باعث شدید زخمی ہیں تاہم ڈر اور خوف سے ہم انھیں علاج کے لئے کہیں نہیں لے جاسکتے-

عبدالحفیظ زہری کی ہمشیرہ نے بلوچ سیاسی تنظیموں انسانی حقوق کے اداروں اور وکلاء برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے میں انکی آواز بنیں تاکہ وہ عدالت سے بے گناہ قرار دیے گئے اپنے بھائی کی زندگی کو محفوظ کرسکیں-

فاطمہ یہی توقع کررہی ہیں کہ عدالت انہیں تحفظ اور انصاف دے گی۔