مہر گہوش: ایک مختصر جائزہ – گوران زَرّیں مہر

560

مہر گہوش: ایک مختصر جائزہ

تحریر: گوران زَرّیں مہر

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ آزادی پَسند لیڈر اور بی ایل اے کے سربراہ جناب بشیر زیب بلوچ کی کتاب “مہر گہوش” چھپ کر سامنے آئی تو میں بھی دوسرے قارئین کی طرح اِس کتاب کو پڑھنے کے لیے بے چین رہا کیونکہ جب اِس طرح کے موضوعات پر کتابیں چھپتی ہیں تو اِن کو پڑھے بنا راحت نہیں ملتی۔ چند دِن کی تگ و دو کے بعد کتاب دوستوں سے ملی۔ یہ کتاب بُنیادی طور پر 2016-2017 کے سیاسی حالات اور تحریک آزادی کے اندر غلط فہمیوں کے اِردگرد گُھومتی ہے، جس میں ہرصفحے پر ایک الگ موضوع کو بیان کیاگیا ہے۔ لیکن یہ کتاب صرف سیاسی حالات اور تحریک کے اندر نشیب و فراز کی کہانی نہیں بلکہ اِیک طرح سے اُن بلوچ نوجوانوں کے لیےمشعل ِ راہ ہے جو تحریک آزادی میں شامل ہیں یا شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہ عام بلوچ کے لیے بھی اِک رہنما ہے جو بحیثیت بلوچ قوم کے فرد اپنی زندگی کس طرح گزارنا چاہتے ہیں۔ اپنے وطن کی سامرا جی قوتوں کے ہاتھوں قبضہ اور مُداخلت کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ کیا اُن کی زندگی میں بلوچ قوم کے لیے کوئی عظیم مقصد ہے یا وہ صرف کھا پی کر زندگی گُزارنا چاہتے ہیں؟

یہ کتاب ایک آزادی پسند لیڈر اور جُہدکار کی اصل میں تحلیل ِ نفسی ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک لیڈ، جہدکار اور اُس کی ٹیم کٹھن حالات میں دُشمن کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں اور اپنی صفیں کیسے مضبوط کرتے ہیں۔ ٹیم ورک کیسے کیا جاتا ہے اور ٹیم کے اندر سخت مراحل میں صبر اور تحمل کا اِحساس کیسے پیدا کیا جاتا ہے، اور مشکل حالات میں انتشار سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ غلط فہمیاں کیسے دور کی جاتی ہیں۔

تحریک کے اندر ہر شخص چاہے وہ کافی عرصے سے تحریک میں رہا ہو یا نیا نیا آیا ہو مستعداور منضبط رہنےکی تلقین کی گئی ہے۔ غلط فہمی کو ایک ناسور قرار دیا گیا ہے، جس سے نہ صرف ایک جُہدکار خود بے چین رہتا ہے ، بلکہ پورے تحریک کے اندر بے چینی پھیلا دیتا ہے۔ وہ اِنسان جو غلط فہمی کا شکار ہو جاتاہے ، آس پاس کے لوگوں کو بھی غلط فہمی کا شکار بنادیتا ہے۔ لہٰذا غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے دوستوں اور سینئرز کے ساتھ مِل بیٹھ کر غلط فہمی کی تہہ تک پُہنچنا چاہیے کہ غلط فہمی پھیلی کہاں سے ہے اور اِس کا اِزالہ کیسے کیا جا سکے، اور بغیر سوچے سمجھے دوسروں کہ طعنہ و تشنیع کرنا یا اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دوسرے کے اوپر بلاجواز ڈالنا کمزور لوگوں کا کام ہوتا ہے۔ کمزور زہن اور کمزور سوچ والے لوگ کسی بڑے قومی مقصد کا حصّہ نہیں بن سکتے اور اگر بن بھی جائیں تو مقصد کو تہس نہس کردیتے ہیں۔

مہرگہوش میں اِس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اِنسانی زندگی میں سب سے بڑا جُز اعتماد کا ہے۔ اور اعتماد کا فقدان غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہرکسی پہ اعتماد کیا جائے اور نہ ہی ہرشخص قابل ِ اعتماد ہوتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے دِل کا راز بتایا جائے۔ پوری دُنیا کی مزاحمتی یا آزادی کی تحریکوں میں جب اعتماد کا فقدان رہا ہے تو وہ تحریکیں بھی ناکام رہی ہیں اور ہرشخص پر اعتماد رکھنے سے بھی تحریکیں ناکام رہی ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دُشمن کی طرف سے کسی نووارِد کو جُہد کار کی شکل میں تحریک کے قابل اعتماد دوستوں کے پاس راز نِکلوانے کے بھیجا جاتا ہے اور جُہد کار اُس پر اعتماد کرکے راز شئیر کرلیتے ہیں اور کُچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ جُہد کار نہیں بلکہ جاسوس تھا۔ اِس لیے جب تک اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی نہ جائے تب تک اعتماد نہ کیا جائے، جس سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ اِس کے برعکس مشکل حالات میں قریبی دوستوں اور اور تنظیم کے کُہنہ مشق دوستوں پر بھی اعتماد ضروری ہے، کیوں کہ وہ کٹھن حالات میں اچھے مشورے دے سکتے ہیں۔

اِس کتاب کے اندر جمہوریت، جمہوری زہنیت اور جمہوریت پسندی کو ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بات واضح کی گئی ہے اگر کسی بھی فرد ، جُہد کار یا سرمچار کو جب بھی کوئی کنفیوژن ہو ، شکایت ہو یا کوئی مشورہ دینا ہو تو وہ جمہوری انداز میں اپنی بات تنظیم کے دوستوں کے سامنے بلا جھجک رکھے۔ اور دوسروں کے لیے بحث و مباحثے کے دروازے کھول دے، جس سے مسئلے کے حل کے اِمکانات زیادہ ہونگے اور سب دوستوں کو سیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔ ہو سکتا ہے کہ کنفیوژن سنگین ہو اور جس سے نقصانات کے خطرات زیادہ ہوں، لیکن جمہوری طریقے اور دوستوں کی سمجھ بوجھ اور دوراندیشی سے اِس کا فی الفور حل نکل سکتا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے۔ اِس لیے اِس حوالے مذکورہ کتاب میں بارہا کہا گیا ہے کہ نفسیاتی وسوسے اور کنفیوژن سے اِنسان اپنے آپ کو بہت دُور رکھے تاکہ منزل تک پُہنچنے میں آسانی ہو اور مقصد فوت نہ ہو۔

اِحساس کمتری بہت بڑی بیماری ہے جو لوگ احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں ، وہ اپنی غلطیوں کو سامنے لانے اور پیش کرنے کے بجائے دوسروں کے ہر عمل میں غلطیاں ڈھونڈتے ہیں۔ اور یہ عمل اُن کو کبھی سُدھرنے نہیں دیتا۔ جب اُن کو یاد دِلایا جاتا ہے کہ یہ آپ کی کمزوریاں ہیں تو وہ بُرامناتے ہیں اور اُلٹا ردعمل دکھاتے ہیں۔ اُن کے اندر یہ نفسیاتی کشمکش ہمیشہ رہتا ہے اور وہ بجائے پُرامید ہونے کے زیادہ تر مایوس رہتے ہیں ، جس سے آس پاس کے لوگوں پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک عظیم قومی مقصد کے پابند شخص کو اِحساسِ کمتری سے کوسوں دُور ہونا چاہیے اور شبانہ روز اپنے مقصد کے تئیں سوچنا چاہیے۔ ایک بامقصد اِنسان کو احساس کمتری میں مُبتلا ہونے کے بجائے حقائق پر یقین رکھنا چاہیے جس سے اُس کی زہنی و فکری بالیدگی ہوسکتی ہے، اور مُفت کے خُرافات اورکشمکش سے بچ سکتا ہے۔

ایک باشعور، بامقصد اور سنجیدہ اِنسان کا سب سے بڑا شیوہ غلطی کا اعتراف یعنی “confession” ہے۔ غلطی ہرکسی سے ہوسکتی ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عالم و دانا ہو یا نادان اور اَن پڑھ، لیکن کی گئی غلطی کا اعتراف کرنا اِنسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور غلطی پر اَڑے رہنا جاہل اور بے شعور اِنسان کی نشانی ہے۔ جو لوگ جاہل اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں وہ کبھی اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو مورِد الزام ٹھراتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب میں جُہد کاروں کو اِس بات کی تاکید کی گئی ہے ، کہ ایک بامقصد کاز کے لیے سب کو چاہے وہ لیڈرشپ ہو یا سپاہی، سب کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور اپنی غلطیاں دوسروں پر نہیں تھوپنی چاہیں ، جس سے تنظیم کے اندر دراڑ پیدا ہوسکتا ہے اور اِس کا بلواسطہ اور بلاواسطہ نقصان تحریک اور بلوچ قوم کو پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا تحریک کا ہر فرد اپنے اندر برداشت اور تحمل پیدا کرے اور اعتراف کرنے کا مادہ پیدا کرے تاکہ ایک عظیم قومی مقصد کے لیے کمربستہ ہوکے منزل تک پُہنچا جا سکے۔

مذکورہ کتاب میں کسی بھی منفی رویے یا وہ رویے جو آپس میں رنجشیں پیدا کرتےہوں ، سختی سے سرزنش کی گئی ہے۔بلوچ معاشرہ اور بلوچ روایات میں ہمیشہ مثبت رویوں کی حوصلہ افزائی اور منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے، لہٰذا منفی رویوں سے گُریز کیا جائے تاکہ اِنسانی و اخلاقی اِقدار متاثر نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہر اِنسان کی عزّت ِ نفس ہے اور ہر منفی رویے سے عزّت نفس مجروح ہو جاتی ہے۔ زیر ِ نظر کتاب کے بیشتر موضوعات میں رویوں کا زکر کیا گیا ہے، اور جُہد کاروں کو یہ کہا گیا ہے کہ وہ مثبت رویوں کی پاسداری کریں ، دوسروں کا خیال رکھیں اور حُسن سلوک سے پیش آئیں ۔ اِس کے ساتھ ساتھ بلوچی روایات و اِقدار کا بھی خیال رکھیں۔

اکثر دیکھنے میں آیاہے کہ ہمارے لوگ خیالی دُنیا میں رہتے ہیں اور حقیقت پسندی سے دُور بھاگتے ہیں۔حالانکہ حقیقت پسندی ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ خیالی دُنیا کے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے، چاہے وہ آزادی کی تحریک ہو یا کوئی اور مقصد۔ اِنسان کو کسی مقصد کے لیے لاشعوری فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ خیالی دُنیا میں رہنے سے طرح طرح کے میٹھے خواب نظر آتے ہیں ، لیکن وہ خواب کبھی پورے نہیں ہوتے۔خیالی دُنیا میں اِنسان کو میٹھی باتیں بھی سُننے کو ملتی ہیں ، جس سے وہ تلخ حقائق کا سامنا کرنے سے گھبرا جاتا ہے، اِس لیے ایک جُہدکار کو خیالی دُنیا سے کوسوں دُور ہونا چاہیے، جس سے اُس کا عظیم مقصد فوت ہو سکتا ہے، اور وہ کہیں کا نہیں رہتا۔

کتاب کے متعدد پَنّوں پر بُغض، حسد اور کینہ پروری کو ایک ناسُور سے تشبیح دی گئی ہے جو اِنسان کے اندر تمام مثبت صلاحیتوں کو ختم کردیتا ہے اور اِنسان کسی کام کا بھی نہیں رہتا ۔ کیونکہ بُغض ، حسد اور کینہ دیمک کی طرح ہوتے ہیں اور یہ ہر اِنسان کے دماغ میں پل پھول سکتے ہیں، یہ دوسرے اِنسانوں کے لیے سمّ ِقاتل کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ حاسد اِنسان کے سامنے ہر دوسرا اِنسان بُرا ہوتا ہے ۔ لہذا جُہدکاروں کو چاہیے کہ وہ اِن کرداروں سے بچ جائیں کیونکہ بغض اور حسد کرنے والے لو گ اجتماعی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور یہ نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔

خودشناسی یعنی اپنے آپ کو پہچاننا ضروری ہے، اِس حوالے سے اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ” من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ”
ترجمہ: جس نے اپنے آپکو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا”۔ اِس بات کا لُب لُباب یہ ہے کہ ہر اِنسان کو خود شُناس ہونا چاہیے اور خصوصا اُس شخص کو جو ایک عظیم مقصد کے لیے لڑ رہا ہو یا دوسروں کی رہنمائی کررہا ہو۔ جو اِنسان خود سے بیگانہ ہو اُسے دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے اپنے آپ کو ” رِی وزٹ” کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہر اِنسان خصوصا ہر جہدکار اپنے آپ کو رِی وزٹ کرے۔

سماجی اور معاشرتی ترقی کی اِکائی زہنی ترقی ہے، جب تک اِنسان کا زہن ترقی نہیں کرتا ، اِنسان سماجی میدان کبھی ترقی نہیں کرتا۔ کسی بھی معاملے کو سمجھنے کے لیے اِنسان کو باشعور ہونا چاہیے۔ جب تک وہ زہنی طور پر بالغ نہ ہو، وہ کسی طرح ترقی نہیں کرسکتا۔

مذکورہ کتاب میں ایک دلچسپ نکتے کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے، جو اکثر لوگوں میں پایا جاتا ہے، چاہے وہ دانشور ہوں، لکھاری ہوں، ادیب ہوں یا معاشرے کے دوسرے افراد ہوں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کی توصیف اور تعریف ہو تاکہ وہ شُہرت پاسکے اور اُس کو سوسائٹی میں پروٹوکول ملے۔ لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ سستی شُہرت پانے والے لوگ یا تعریف اور توصیف کے بھوکے لوگ عارضی طور پر شاید لوگوں کی نظروں میں تو ہیرو بن جاتے ہیں لیکن دائمی شہرت سے رہ جاتے ہیں۔ اِس لیے کسی بھی اِنسان کو نام ونمود کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ایک مقصد سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے جس سے وہ خو د لوگوں کی نظروں میں امر ہوجاتا ہے۔ اور دُنیا اُس کو یاد رکھے گی۔

مزاحمتی اور آزادی کی تحریکوں میں رازداری کیوں ضروری ہے اور راز آشکار کرنے سے کتنے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں جُہد کاروں کو اِس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تنظیمی راز کو اُس وقت تک کسی کے سامنے آشکار نہ کریں جب تک اُس پور ا اعتماد نہ ہو۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ اِنسان جوش میں آکر یا مذاق میں کُچھ ایسے راز شئیر کرتا ہے جس سے نہ صرف اُسکی ذات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکیں اُس کی اِس غلطی کی وجہ سے پوری تنظیم کو نقصان پُہنچ سکتا ہے۔ اِس لیے دانستہ یا نادانستہ طورپہ کسی طرح کے تنظیمی رازوں کو آشکار نہیں کرنا چاہیے۔

تحریک کے اندر انفرادی سوچ اور انفرادیت کے بہت سارے نقصانات ہوتے ہیں۔ کیونکہ عظیم قومی مقصد کے لیے مُشاورت ضروری ہے اور باہمی مشورے سے جو اقدامات اُٹھائے جاتے ہیں اُن کے کامیاب ہونے کے سو فیصد چانسز ہوتے ہیں ، لیکن جو اقدامات انفرادی ہوں شاید اُن سے ناقابل تلافی نقصانات پُہنچ سکیں۔

اِس کتاب کے اندر بی ایل اے کے سربراہ جناب بشیر زیب بلوچ نے ایک اہم نقطے یعنی ” تحریک یا تنظیم کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے، جُہد کار یا عوام”؟ پر سیرحاصل بحث کی ہے۔تحریک کی ناکامی کے ذمہ دار تحریک کے اندر جُہد کار بھی ہوتے ہیں اور عوام بھی۔ جُہد کار کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ کٹھن حالات اور مشُکلات کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور اپنی مایوسی اور ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹہراتا ہے، جس سے اُس کی مایوسی اور چڑچڑاپن دوسرے جہد کاروں کو بھی متاثر کردیتا ہے، پھر ایسے لوگ تحریک کے اند ر انتشار پھیلاتے ہیں۔ دوسر ا مسئلہ عوام کی عدم دِلچسپی ہے۔ عدم دِلچسپی سے مراد اخلاقی اور مالی کمک کے علاوہ ہر مُشکل حالات میں جُہدکاروں کی مدد نہ کرنا ہے۔ دُنیا کی تمام آزادی کی تحریکوں کی کامیابی میں عوام کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ عوام جُہدکاروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، اُنہیں بروقت دُشمن کے متعلق معلومات فراہم کرتے ہیں، مالی کُمک کرتے ہیں اور سامان ِ رسد پُہنچاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر میدان میں جُہد کاروں کی سپورٹ اور حوصلہ افزائی کے لیے زہن سازی کرتے ہیں۔ جنگی ماحول میں اُنہیں محفوظ ٹھکانے مُہیّا کرتے ہیں۔

میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ اِس وقت ہماری قوم کے اِندر پہلے کی نسبت یہ سوچ اُبھر رہی ہے کہ اب راستہ صرف آزادی ہی کا ہے، لیکن سامراجی قوتوں نے عوام کے اندر غلامی کے اتنے بیج بو دیے ہیں کہ عوام گوناگوں نفسیاتی کشمکش ، معاشی ، اَخلاقی اور فکری گراوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ خود بلوچ سیاسی لیڈرشپ اور پاکستان کی پارلیمنٹ پر بھروسے کرنے والے رہنماوں نے بلوچ عوام کی رہی سہی جان نکال دی ہے۔ جس سے وہ اتنے ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں کہ اُنہیں اپنے رِشتہ داروں سے خوف آتا ہے۔ بشیر زیب بلوچ نے ایک نقطے کی طرف اِشارہ کیا ہے کہ جو جُہد کار مایوس ہوتے ہیں تو وہ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

تحریک کے اندر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وقتی طور پر خیرخواہ ہوتے ہیں، لیکن جُونہی اُن کو وقت ملے الزام تراشی شروع کردیتے ہیں۔ اصل میں یہ لوگ نفسیاتی طور پر خودغرض اِنسان ہوتے ہیں اور حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے یا نام و نمود کے بھوکے ہوتے ہیں جیسے پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ عارضی خیرخواہ کبھی بھی تحریک کو منزل کی طرف نہیں لے جاسکتے ہیں، بلکہ تحریک کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں ۔ اِس لیے تحریک کو عارضی خیرخواہ کی ضرورت نہیں بلکہ سنجیدہ اور ذمہ دار جُہدکاروں کی ضرورت ہے، جو ہر میدان میں کمربستہ ہوں اور ہر مشن کے لیے چاق و چوبند ہوں۔ تحریک کو اُن جُہد کاروں کی ضرورت ہے جو ہمیشہ پُر عزم اور پُر اُمید ہوں۔ تنظیم کے اندر نیم جُہد کار یا ناپُختہ جہدکار کو پرانے جُہد کار کے طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے جو تحریک کے نظام کے تحت چل رہے ہوتےہیں۔

زیر نظر کتاب میں جُہد کار کے کردار اور گفتار کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ کتاب میں یہ عنصر واضح کیا گیا ہے کہ عظمت ِ بشر کی بُنیاد کردار پر ہی منحصر ہے۔ جب اِنسان کے کردار اور گفتار میں تضاد ہو یا کردار داغدار ہو تو وہ کسی عظیم مقصد کو لے کر آگے نہیں لے جاسکتا اور نہ ہی بدکردار شخص کی لوگ پیروری کریں گے۔ اِس لیے اِس کتاب میں جُہدکاروں کو تاکید کی گئی ہے کہ بُلند کردار کو ہی اپنا لیں ، جس سے آپ کی شخصیت کی آبیاری ہوگی اور آپ قوم کے سامنے سُرخ رو ہو جائیں گے۔

تحریک کے اندر بھروسہ اور اعتماد کا فقدان نہیں ہونا چاہیے، ضروری نہیں کہ ہر بندہ بے بھروسہ ہو یا قابل بھروسہ ہو، لیکن ٹیم کے اندر قابلِ بھروسہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن پہ اعتماد کرنا ضروری ہوتا ہے۔تحریک میں حساس اور پیچیدہ معاملات بھی جنم لیتے ہیں، جس سے کبھی کبھار کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن بااعتماد دوستوں کے ساتھ ملکر پیچیدہ معاملات کا حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔انسان کو ہر وقت اپنے عمل اور کاز کے حوالے سے پُر اعتماد ہونا چاہیے، اور باہمی تضادات کو پرے رکھنا چاہیے، کیونکہ تضادات کسی بھی مقصد کو پنپنے نہیں دیتے۔

ایک اہم نقطہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر بات ہوتی ہے تو اُس کے حوالے سے علم ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر اِنسان ادھوراہے اور نہ ہی علم کے بغیر دلائل دے سکتا ہے۔ اِس لیے وسیع مطالعے کے ساتھ ساتھ تجربہ اور وزڈم کا ہونا ضروری ہے۔

کتاب کے آخر میں بلوچ قوم اور سرمچاروں کے حوالے سے ایک اہم نکتے کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے کہ اکیسویں صدی اور پندرہویں یا سولہویں صدی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُس وقت کے معروضی حالات کُچھ اور تھے اور آج کے معروضی حالات کُچھ اور ہیں۔ آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دَور ہے اور دُشمن اُس زمانے کی نسبت ذیادہ طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ جو قومیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنسی دُنیا کے ساتھ علمی اور شعوری دُنیا سے دُور اور فروعی معاملات میں جھکڑے ہوئے ہوتے ہیں وہ ترقی اور آزادی کا خوب نہیں دیکھ سکتے۔اِس کتاب میں بلوچ سرمچارون سے گزارش کی گئی ہے کہ چھوٹی سی باتوں سے مایوس ہو کر دِلبرداشتہ نہ ہوں، بلکہ حقیقت پسندی کامظاہر ہ کریں ، نفسیاتی معاملات میں اُلجھنے سے پہلے اپنے آپ کو کلئیر کردیں ، اور ایسی حرکت نہ کریں جس سے تحریک آزادی کو نقصان پہنچے۔

یہ کتاب گوکہ ایک قلیل عرصے پر محیط ہے، لیکن اِس کتاب میں تحریک یا تنظیم کے اندر فرد کے اندر اُن تمام نفسیاتی معاملات کو زیر بحث لایا گیا ہے، جو روز مرہ ہر شخص کو درپیش ہوتے ہیں۔ بہ این ہمہ، یہ کتاب ہرشخص کی تحلیل نفسی ہے جو ایک عظیم مقصد کے لیے آگے بڑھتا ہے ، چاہے کامیاب ہو یا ناکام۔ یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے بھی ایک رہنما کی حیثیت رکھتی ہے، جو کٹھن اور مشکل حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور اُن لوگوں کے لیے بھی مشعل ِ راہ ہے جو نفسیاتی اُلجھنوں سے دُور ہوں۔

اُمیدِ قوی ہے کہ جناب بشیر زیب بلوچ جب اِس کتاب کا دوسرا حصہ چھپوائیں گے تو اُس میں بھی تنظیمی معاملات کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کے دانشور ، ادیب اور تعلیم یافتہ افراد کو اُن کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم پیغام دیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں