غیاث الدین بلوچ کی طویل جبری گمشدگی، لواحقین کا حب میں احتجاج

251

دس سالوں سے جبری لاپتہ حب کے رہائشی غیاث الدین کے لواحقین نے انکی بازیابی کیلئے احتجاج کیا۔

حب احتجاج میں جبری لاپتہ غیاث الدین بلوچ، بلوچ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، لاپتہ شبیر بلوچ، الہی بخش بگٹی اور لاپتہ محمد اسلم بلوچ کے لواحقین سمیت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ اور طلباء، سیاسی، سماجی تنظیموں کے ارکان نے شرکت کی-

مظاہرین نے اس موقع پر ہاتھوں میں لاپتہ افراد کے تصاویر اور بینر اُٹھائے ہوئے تھے، شرکاء نے حب پریس کلب کے سامنے سے ریلی نکالی جو مرکزی شاہراہ سے ہوتے ہوئے واپس حب پریس کلب کے سامنے آکر جمع ہوئے-

مظاہرے سے گفتگو کرتے ہوئے غیاث الدین بلوچ کی بیٹی کا کہنا تھا کہ میرے والد غیاث الدین کو اکتوبر 2013 میں پاکستانی فورسز نے کراچی سے جبری طور پر لاپتہ کیا جو ابتک لاپتہ ہے اور ہماری بچپن بغیر والد کے سہارے گذر رہی ہے-

غیاث الدین کی بیٹی کا کہنا تھا ہم والد کی شفقت سے محروم ہیں اگر میرے والد پر کوئی الزام ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ہمیں والد کے محبت کا احساس نہیں کہ وہ ہم سے کتنا محبت کرتا ہے کیونکہ ہم نے والد کو دس سال سے نہیں دیکھا ہے ہم چھوٹے تھے والد لاپتہ کردیے گئے-

انہوں نے کہا اس طویل دورانیہ میں ہم نے اپنے والد کو تلاش کرنے کے لئے اور انصاف کی مانگ کے لئے ہر در پر دستک دی عدالت جے آئی ٹی اور کمیشنز میں حاضری دی تاکہ کہیں سے ہمیں کوئی امید ملے لیکن آخر کار ہم احتجاج پر مجبور ہوئے لیکن ہمیں انصاف فراہم نہیں کیا گیا اور آج تک ہم اپنے والد کے واپسی کی منتظر ہیں-

مظاہرے میں شریک لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کی بھتیجی ماہزیب بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا ہم اپنے پیاروں کے لئے انصاف مانگنے ہر دوسرے دن پریس کلبوں کے سامنے جمع ہوتے ہیں، یہ امید لیکر کہ ہماری آواز سنی جائیگی لیکن آج تک ہمیں انصاف نہیں ملا جبکہ میڈیا جو سیاسی پارٹیوں کے جلسوں کو اسی پریس کلب کے سامنے آئے روز کوریج دیتی ہے لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین کے لئے صحافیوں اور میڈیا کا رویہ بھی ریاست جیسی ہے-

حب احتجاج کے شرکاء نے انسانی حقوق کے تنظیموں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقنی بنانے و جبری گمشدگیوں کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے-

مظاہرے میں شریک 2011 سے جبری لاپتہ حب کے رہائشی الہی بخش بگٹی کے بیٹے کا کہنا تھا کہ انکے والد کو دو مرتبہ ریاستی اداروں نے حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا تھا، 2011 کو جبری گمشدگی کے بعد سے وہ بازیاب نہیں ہوئے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ والد کو منظر عام پر لاکر ہمیں انصاف فراہم کیا جائے- مظاہرے میں شریک اسلم بلوچ کے والد نے بھی لاپتہ بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کیا-

مظاہرے شریک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء و جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شدت اختیار کررہا ہے دو لوگ اگر بازیاب ہو بھی جاتے ہیں تو اگلے روز مزید دس افراد کو فورسز حراست میں لیکر لاپتہ کردیتے ہیں اس ناانصافی کے خلاف بحیثیت قوم ہم سب کو متحد ہوکر آواز اُٹھانے کی ضرورت ہے-

سمی دین بلوچ کا مزید کہنا تھا دس سالوں سے لاپتہ غیاث الدین کے لواحقین اور ماہ زیب کی درد و اذیت کو میں محسوس کرسکتی ہوں ہماری جہدو جہد اپنے پیاروں کی باحفاظت واپسی اور انصاف کی فراہمی تک جاری رہیگی جس کے لئے ہم ہر فورم پر آواز اُٹھاتے رہینگے-