شناخت ، اقدار اور آزادی (حصہ دوئم) ۔ مہر جان

222

شناخت ، اقدار اور آزادی (حصہ دوئم)

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ 

سیلف و ادر کی اس کشمکش (مزاحمت) کی وجہ سے نہ صرف ادارے اور ریاست جنم لے رہے ہیں ، بلکہ خود شعوری سے ایک سفر کا آغاز ہوتا ہے بقول ھیگل “ خود شعوری خود میں خود(سیلف) کے لیے وجود رکھتی ہے ، کیونکہ حقیقت میں یہ کسی اور کی خود شعوری (ادر) کے لیے وجود رکھتی ہے جس کا مطلب ہے اس کا شناخت تسلیم شدہ ہے” اس سفر کو محاورتا اوڈیسی کہاجاتا ہے یہ سفر اس (سیلف/ ادر) کی مزاحمت کی بدولت رواں دواں ہے ، جن کی خواہش شناخت کی ہوتی ہے ، ہیراکلیطس کا یہ کہنا یہاں کتنا بامعنی ہوجاتا ہے کہ “مزاحمت ہی انصاف ہے” یہ سیلف اور ادر کی مزاحمت یونیورسل ہے ، بہرحال ھیگل کے سیلف و ادر کی یونیورسلیٹی کو سارتر و فینن کالونیل پس منظر میں نہ مکمل طور پہ مسترد کرتے ہیں نہ ہی مکمل طور پہ اپناتے ہیں ، فینن اپنی کتاب میں “بلیک اسکن واہٹ ماسک “ میں ھیگل کے سیلف اور ادر (آقا و غلام کی جدلیات) کو کالونائزرر و کالونائزڈ کے حوالے سے دیکھتا ہے، جہاں وائٹ بلیک کو حقیر جان کر یہ خواہش نہیں کرتا کہ وہ بلیک سے اپنی شناخت منواۓ بلکہ وہ بلیک کی “محنت” پہ انحصار کررہا ہوتا ہے جبکہ بلیک بھی وائٹ سے اپنی شناخت نہیں منوا رہا ہوتا بلکہ ان کی “جگہ” لینا چاہ رہا ہوتا ہے ، جس کی فینن سختی سے مکمل طور پہ ممانعت کرتا ہے۔ 

یہاں مختلف کالونیل پس منظر کی وجہ سے معاملہ دیگر ہے ، بطور محکوم قوم کے یہاں مزاحمت ساحل و وسائل کے ساتھ ساتھ اقوام کی برابری(محبت ، عزت و وقار) کے لیے بھی جاری ہے، جبکہ حاکم اپنی شناخت بطور قابض کے بنا چکا ہے،بقول ھیگل “باہمی تعلق کے ذریعے ایک دوسرے کو شناخت دیتے ہوۓ وہ خود کو شناخت دیتے ہیں “ قابض اپنی شناخت سے قطع نظر اپنی پوری نظر زمین، ساحل و وسائل پہ جماۓ ہوۓ ہے ، یعنی کالونیل پس منظر میں شناخت کا حوالہ کسی حد تک بدل جاتا ہے ، جس پہ مارکس جیسے مفکرین نے “سرمایہ” میں وضاحت کے ساتھ لکھا ہے ، مارکس اسی کالونیل تناظر میں بہت واضح طور پہ زمین کے سوال کو سماج سے جوڑ کر نو آبادیات کے لیے زمین کو مرگ و زیست کا مسئلہ سمجھتا ہے ، اس مقام پہ “کاہنات کا شہری ہونا” محکوم کی زمین ، ساحل وسائل کو کاہناتی قرار دینا ہر لحاظ سے استعمار کی طاقت میں اضافہ کے باعث بنتا ہے، یہاں شناخت صرف اور صرف نفسیات کا معاملہ بن کر نہیں رہتی ، جسے فقط “نفسیاتی بناوٹ” کہہ کر نظر انداز کیا جاۓ ، بلکہ شناخت کالونیل پس منظر میں اپنے اندر نفسیاتی و مادی دونوں پہلوؤں کا سنگم بنتا ہے ، شناخت کا انسانی زندگی میں نفسیاتی پہلو اسی قدر اہمیت کا حامل ہے جس قدر انسان کی زندگی میں مادی پہلو کی اہمیت و ضرورت ہے۔ یہ کالونیل پس منظر بھی ھیگلین جدلیات ہے جسے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔ 

کالونیل پس منظر سے ہٹ کر بھی گر دیکھا جاۓ انسان کا تعلق انسان کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات کا بھی ہوتا ہے، نفسیات کاتعلق فرد سے زیادہ معاشرتی(سیلف و ادر ) ہے ، اس لیے اب کلینکل نفسیات میں معاشرتی ایجوکیشن پہ زیادہ زور دیا جارہا ہے ، بابس غالبا وہ پہلا فلاسفر تھا جس نے اس خیال کو تقویت دی کہ مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں نفسیاتی ضروریات بھی ایک دوسرے سے جُڑی ہوئ ہیں ، شناخت کو جب فرینکفرٹ اسکول آف تھاٹ حقیقی طور پہ بطور نفسیات کے زیر بحث لایا ، تب بھی شناخت اتنی ہی اہمیت کی حامل تھی اب جبکہ شناخت کا تعلق صرف نفسیات سے نہیں بلکہ کالونیل پس منظر کی وجہ سے شناخت آپ کی زمین، اقدار اور آپ کی آذادی سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس کی اہمیت سے انکار کسی صورت ممکن نہیں ۔اب یہ صرف اور صرف نفسیات کا مسئلہ نہیں رہا کہ کوئ آپ کیا سمجھ رہا ہے ، بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کی آذادی سے لے کر آپ کے وسائل اور ذرائع پیداوار پہ بلواسطہ یا بلاواسطہ قابض بھی ہے ، وہ اپنی جارحانہ فکر و عمل اور جارحانہ طاقت سے اپنی شناخت کو بطور “قابض” کے بنا چکا ہے ، یہ شناخت نہ صرف وہ شعوری طور پہ قبول کرچکا ہیں ، بلکہ ان کے لاشعور میں نسل در نسل یہ شناخت پنپ رہی ہے ، جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے زہر قاتل بنتی جائیگی ، یہ سارا عمل جس طرح محکوم کے شعور کو پروان چڑھا کر انسان دوست ، قوم دوست بناتا جا رہا ہے اسی طرح قابض کی لاشعور بطور قابض کے اسے انسانیت کی درجے سے انسان دشمن ، قوم دشمن حیوان بناتا جارہا ہے ۔ بقول بابا مری اب یہ محکوم کی ذمہ داری ہے کہ اسےحیوان سے انسان بناۓ ۔ 

کالونیل شناخت کی اس نفسیاتی پہلو کو ہمیشہ نظر انداز کرتا ہے ، اس کی نظر زمین ، ساحل و وسائل پہ جمی ہوئ ہے ، وہ اس شعور کو نظر انداز کرتا ہے جو شعور زمین سے ابھر رہا ہو ۔زمین زادوں کا شعور سے وابسطہ ان سوالات کو نظر اندا کرتا ہے جو اُن کی اپنی زمین سے جڑے ہوۓ سوالات ہیں ۔ ان کی اپنی زمینی و تاریخی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے، انکے سماجی حالات ، ثقافت و اقدار اور رویوں کو نظر انداز کرتا ہے ، ہر اُس آواز کو نظر انداز کرتا ہے ۔ جو زمین زادوں کی نفسیات سے جڑی ہوئ ہو ، اس آواز کو دبانے کے لیے ، شعور و اقدار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے نہ صرف طاقت (بندوق) کا استعمال کرتا پے بلکہ انٹیلجنشیاء و اکیڈیمیاء (قلم) کو بھی بروۓ کار لاتا ہے ، جنکا قلم مینیفیکچرڈ ہے ۔ وہ اپنی فھم میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو سب کے لیے لکھ رہےہیں لیکن اُن کا قلم قابض کی بندوق کی طرح زمین زادوں کے لیے اسی طرح اجنبی ہے ،جس طرح زمین زادوں کے شعور سے جڑے ہوۓ سوالات و خیالات اُن کے لیے اجنبی ہیں ، یہ بیگانگی یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے ، یہ ایک پورا نفسیاتی عمل ہے ، ایک ایسا عمل جہاں ایک سہمے ہوۓ بچے کے لیے فرانز فینن اپنی شناخت کی بدولت اجنبی بن جاتا ہے ، یہ اجنبی پن نفسیات کی دنیا میں شناخت کا معمہ ہے جسے پوسٹ کالونیل ڈسکورس میں بہت واضح طور پہ بیان کیا گیا ہے کہ شناخت کو فقط نفسیاتی معمہ کہہ کر انسانی زندگی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں