ری امیجننگ پاکستان: بلوچستان میں ایک نیا تجربہ؟ – ٹی بی پی اداریہ

417

ری امیجننگ پاکستان: بلوچستان میں ایک نیا تجربہ؟
ٹی بی پی اداریہ

کوئٹہ میں ری امیجننگ پاکستان کے نام سے ایک سمینار منعقد کیا گیا جس میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ن لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی، بلوچستان کے سابق وزیر اعٰلی نواب اسلم رئیسانی، پاکستان کے موجودہ ن لیگی حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور سینٹر مصطفی نواز کھوکھر ، پاکستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور حق دو تحریک کے رہنما واجہ حسین واڈیلہ و دیگر نے خطاب کیا۔

پاکستان میں جب بھی کوئی نیا تجربہ کیا جاتا ہے تو اُس کی شروعات بلوچستان سے کی جاتی ہے، چاہے وہ راسکوہ میں ایٹمی تجربات ہوں یا باپ کی شکل میں راتوں رات وفاقی پارٹی کا ارتقاء ہو، اب ری امیجننگ پاکستان کو بھی بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے لانچ کیا گیا ہے۔ اب تک واضح نہیں ہیکہ ری امیجننگ پاکستان کے مقاصد کیا ہیں لیکن اُن کے رہنماء کہتے ہیں کہ وہ اُن مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں جِن پر پاکستان کے اسمبلیوں یا متعلقہ فورمز پر بات نہیں ہورہی ہے۔

سیمینار میں جبری گمشدگیوں سمیت بلوچستان کے سلگتے مسائل پر بات کی گئی۔ بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی کی گئی لیکن اُن کے حل کے لئے واضح روڈ میپ نہیں دیا گیا اور جِن مسائل پر بات کی گئی اُن کے زمہ دار بھی کسی حد تک سیاسی شخصیات اور پارلیمانی جماعتیں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے، تب وہ جبری گمشدگیوں پر بات کرنے کے لئے تیار تھے نہ ہی بلوچستان میں فوجی آپریشن پر لب کشائی کی تھی۔ بلوچستان میں جب روز جبری گمشدہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملتی تھی اُس وقت مصطفی نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی۔

آج بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں میں قتل کرنے پر واویلہ کرنے والے نواب اسلم رئیسانی وزیر اعٰلی بلوچستان تھے، جب بلوچ نوجوانوں کے قتل عام کا تسلسل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں شروع ہوا تھا۔ پاکستان میں پارلیمانی جماعتیں اور شخصیات اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو بلوچستان میں انہیں ظلم ؤ جبر نظر آجاتا ہے لیکں جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ریاستی ظلم میں پاکستان فوج کے ہمنوا بن جاتے ہیں۔

بلوچستان کے مسائل سیمینار سے خطاب کرنے یا پارلیمنٹ میں ایک بِل پاس کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ جب تک ریاست پاکستان یا پاکستانی فوج بنیادی بلوچ قومی حقوق بشمول حق آزادی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہونگے تب تک بلوچستان سلگتا رہے گا اور بلوچ انسرجنسی جاری رہے گی۔