بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ماما قدیر بلوچ

133

بلوچ طلبا، سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4928 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں جیئند بلوچ، حسیب بلوچ، جاوید بلوچ اور دیگر نے لواحقین سے اظہار یکجتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ دنوں کوئٹہ سے مزید بلوچ طلبا کو لاپتہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ طالب علم اور سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

انکا کہنا تھا کہ بلوچستان کے تمام گلی کوچوں اور ان تاریک راہوں مارے گئے لوگوں کا جرم اتنا تھا کہ وہ قومی بقا کے شمع پر جلنے والے پروانے تھے اور گناہگار اس لئے کہ وہ سر کش تھے جو تاریکیوں میں جھکے نہیں جو سودا گر نہیں سچے عاشق تھے دنیا کی تاریک میں امر ہونے والے ان تمام ہیروز کی طرح وہ بھی انسانیت کے لئے مقدس اور پرامن جدوجہد کے حقیقی ہیرو ہیں جو صدیوں سے چل رہی تسلسل کی کڑیوں کو جوڑنے اور تھامے ہوئے آگے ہی آگے بڑھے چلے آرہے ہیں ۔

ماما قدیر نے کہا کہ جنہوں اس جدوجہد کی پاداش میں زندگیاں گنواںٔیں مگر یقین اور عزم نہیں گنوایا ہمارے ہی سرزمین کے بطن سے پھوٹے ہوئے کہیں جوان پھول ایسے بھی ہے جن کے نام اور چہرے ہم میں سے کسی نے سنے اور دیکھے نہیں لیکن انکا مقصد ایمان اور پرامن جدوجہد اسی دھرتی ننگ ناموس کی حفاظت تھا۔

انہوں نے کہا کہ جنہوں نے گمنامی کی موت کو خندہ پیشانی سے قبول کیا مگر دنیا کی تاریخ میں اپنے قوم اور زمین کو گمنامی کی موت مرنے نہیں دیا آج انکی خاکی جسمیں کہا کس مقام پر دفن ہیں یہ ہم میں سے کسی کو علم نہیں مگر ان کی روحیں آج بھی ہمارے آس پاس سانس لے رہی ہیں۔