گوادر کے بلوچ محنت کش عوام پر ریاستی جبر و تشدد قابل مذمت ہے۔ بی ایس او

123

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے گوادر کے لوگ بنیادی حقوق کےلیے مسلسل پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔ دو ماہ سے مسلسل احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے مگر نا اہل مسلط کردہ حکمران اپنا وعدہ نبھانے اور گوادر کے ہزاروں بلوچ محنت کشوں کو ان کا بنیادی حق فراہم کرنے کی بجائے جبر و تشدد اور فوج کشی پر اتر آئے ہیں جو کہ قابل مذمت اور نا قابل قبول ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ یہ ان مسلط کردہ کالونیٸل حکمرانوں کا شیوہ اور نفسیات رہا ہے کہ پر امن عوامی تحاریک کو یلغار و بے رحم تشدد اور فوج کشی سے کچلا جائے مگر یہ ان نادانوں کی بھول ہے، ریاست کا غیر منطقی وحشیانہ جبر عوام کو مزید اپنی تحریک کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں منظم، محتاط و طاقتور بنا دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر کی تحریک ہزروں لاکھوں بلوچ محنت کشوں کی تحریک ہے جن کے مطالبات بنیادی انسانی حقوق کے ارد گرد ہیں۔ اپنی عمر و تسلسل کی بنا پر یہ عوامی تحریک اب یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کو کسی فرد یا گروہ کے گرد محدود کردینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس لیے آج ضروری امر یہ ہے کہ اس تحریک عوام تک پہنچ کر ان کا ساتھ دیا جائے اور اس مزاحمت کو مزید طاقت و توانائی بخشی جائے ۔

مرکزی ترجمان نے کہا قابل افسوس امر یہ ہے کہ بلوچ قوم دوست حلقوں نے گوادر کے اس عوامی تحریک کو اپنانے میں سیاسی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اسے وقتی ابھار سمجھنے کی غلطی کی، جب تحریک توانا ہوکر ابھری اور عوامی شرکت و جہد مسلسل اپنے اثرات قاٸم کرنا شروع ہوئی تو اس تحریک کے خلاف ہر طرف سے زہر افشانی شروع ہوگئی۔ مگر عوامی تحاریک نہ پروپیگنڈوں سے روکے جاسکتے ہیں نہ ہی کسی میر و سردار کی خواہش کے مطابق جھک سکتے ہیں۔ تبھی آج اس مضبوط تحریک کو ختم کرنے اور کچلنے کےلیے یہ سیاسی جماعتیں ریاست کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اور گوادر کے عوام پر ہونے والی جبر و تشدد پر خاموش تماشائی بن کر زیرِ لب مسکرا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں بلوچ عوام پر تشدد کا جواب دہ وہاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے نمائندے اور صوبائی اسمبلی کے ممبر حمل کلمتی بھی ہیں جن کی پارٹی اس وقت مرکز میں بر سر اقتدار ہے جب کہ صوبائی سطح پر حکومت کا دست راست، اور ان کی جماعت کا گوادر تحریک کے حوالے سے بیانیہ بھی اس تشدد کی بنیاد بن رہا ہے۔ جو کہ ایک تاریخی کلنک ثابت ہوگا۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ گوادر تحریک کے خلاف کریک ڈاٶن، عام بزگ بلوچ عوام پر وحشیانہ تشدد و پولیس کشی اور فوج کشی کے بھیانک نتاٸج بر اٰمد ہونگے۔ ان ابھرتے ہوئے متشدد حالات میں تمام قومی نمائندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچ عوام کی نمائندگی کےلیے آگے بڑھیں نہ کہ اس سے گریزاں رہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گوادر کے بلوچ عوام پر ہونے والی جبر و بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ان کے مطالبات کی حمایت میں کھڑی ہے۔